ثمینہ راجہ


یہ دنیا ایک پر شور اور پر ہجوم جگہ ہے مگر میری روح تنہا ہے ۔
 
اور اس کی تہہ میں ایک شعلہ ہے ۔ اس شعلے کی لو
 
جلوت میں دھیمی پڑ جاتی ہے اور خلوت میں اونچی ہو جاتی ہے ۔
 
بلند تر اور روشن تر۔ میرے دل میں ایک پھول ہے ۔
 
یہ پھول، ہجوم کی حدت سے مرجھانے لگتا ہے اور تنہائی کی

طراوت سے مہک اٹھتا ہے ۔ اس پھول کی خوشبو مجھے

ایک باغ کی یاد دلاتی ہے ۔ اس گمشدہ جنت کی یاد

جس سے مجھے میری خواہش کے برعکس، بے دخل کر دیا گیا

اور جس کی جستجو ابدالآباد تک میرا مقدر کر دی گئی ۔ 

یاد پڑتا ہے، وہاں دھند کے روپہلے بادلوں میں 

حیرت زدہ زمین پر میرے ساتھ کوئی تھا کون تھا؟ اور اب کہاں ہے؟ 

وہ اس دنیا کے زرد راستوں پر ملے گا یا عدن کے سبز راستے پر؟ 

اس کی تلاش میں خود فراموشی کی طرف جانا ہو گا

یا خود آگہی کی سمت پلٹنا ہو گا؟ یہ سوالات میرے لہو میں

گونجتے ہیں اور ان سے نظمیں تخلیق ہوتی ہیں ۔ 

یہ سوالات، ایک فرد، ایک جسم، ایک روح، ایک دل کے

سوالات نہیں ہیں ۔ یہ تلاش، ایک فرد، ایک جسم، ایک روح،

ایک دل کی تلاش نہیں ہے ۔ یہ سب کے سوالات ہیں ۔

یہ سب کی تلاش ہے ۔ کسی اور جگہ پر رہنا، کسی اور مقام کی

جستجو کرنا ۔ اسی اور کے پاس ہونا، کسی اور کی آرزو کرنا ۔ 

یہی سب کا مقدر ہے مقدر، جسے سب میں سے بیشتر،

فراموش کر چکے ہیں ۔ مگر کسی فنکار کو اسے فراموش نہیں

کرنا چاہیئے ۔ کسی شاعر کو تو ہرگز نہیں 

''A poet,s life should be a true poem'' (Milton) 

'شاعر کی زندگی واقعی نظم بن سکتی ہے ۔ لیکن سیرابی سے نہیں

پیاس سے ۔ نیند سے نہیں، خواب سے ۔ موجود سے نہیں،

ناموجود سے ۔ حاصل سے نہیں، لاحاصل سے ۔ وصل سے نہیں

ہجر سے ۔ 'کاش' سے اور تلاش سے میں خود سے کہتی ہوں ۔

اپنی جنت گم گشتہ کی تلاش اور اپنی گمشدہ ہستی کی جستجو ''  

''PARADISE LOST''

سے اس کتاب تک، یہی ہر فنکار کا مسئلہ ہے ۔ یہی ہر فن کا محرک

انسانوں کی طرح کتابیں بھی عدم سے وجود میں آتی ہیں ۔ 

سانس لیتی ہیں ۔ مسکراتی ہیں اور زندگی کی گہما گہمی میں 

کھو جاتی ہیں ۔ انسانوں کی طرح کتابوں کی پیدائش کا بھی 

وقت مقرر ہوتا ہے ۔ شاید اسی لیے یہ کتاب جسے 

'عدن '' کے نام سے پہلے وجود میں آنا تھا روک لی گئی 

اور ''پری خانہ'' کو وجود عطا کر دیا گیا ۔ 

یہ واقعہ میرے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ مسافر کے کیے اس کے

سفر کا ہر سنگ میل اہم ہوتا ہے ۔ ہر قدم اہم ہوتا ہے ۔ 

کسی اور کے لیے اس کی کوئی اہمیت ہو یا نہ ہو

یوں بھی یہ دنیا تو ایک پر شور اور پر ہجوم جگہ ہے ۔ 

جہاں سب میں سے بیشتر نے جدید ترجیحات کی تیز رفتاری میں

اپنی قدیم روحوں کو روند ڈالا ہے ۔ انہوں نے اپنے شعلوں کو

مدھم پڑنے، اپنے پھولوں کو زردانے کے لیے چھوڑ دیا ہے ۔

اور ان کی اس روش پر میں بہت غم زدہ ہوں ۔ 

''کیوں غم زدہ ہوں؟'' میں خود سے پوچھتی ہوں ۔

'' کیا میری روح قدیم ابھی تک زندہ ہے؟''


ثمینہ راجہ

--------------

2003




1


عدن



ہمیں اس باغ میں رہنے دیا ہوتا

وہیں آہ و فغاں کرتے

ہم اپنے ناتراشیدہ گناہوں کی معافی کے لیے

جن کو ہمارے نام پر ۔۔۔ روز ازل سوچا گیا

اس باغ میں سر سبز تھے ہم

پتھروں میں سنگ تھے

پھولوں میں گل تھے

طائروں میں ہم بھی طائر تھے

ہمیں اس نیند میں رہنے دیا ہوتا

جہاں نوزائدہ، معصوم تھے ہم

پر گنہ، ہر لذت تکمیل سے محروم تھے ہم

جسم پر ملبوس آبی تھے

مگر یہ دل حجابی تھے

تو ہم اس عالم خوابیدگی میں

نفس کی پاکیزگی میں

ساتھ تیرے ۔۔۔۔ ساتھ اپنے

ہو چکا وعدہ، وفا کرتے

فرشتوں سے زیادہ ہم ۔۔۔ تری حمد وثنا کرتے

تجھے بھی یاد تو ہو گا

فرشتے جب ادب سے کہہ رہے تھے

''آپ وہ مخلوق پیدا کر رہے ہیں

جو زمیں پر شورشیں برپا کرے گی

خوں بہائے گی

زمیں بھی کانپتی تھی

آزمائش سے پناہیں مانگتی تھی

آسمانوں میں ، زمینوں میں نہاں

سب حیرتوں کو ۔۔۔ سارے رازوں کو

تو ہر اک جاننے والے سے بڑھ کر جانتا ہے

اپنی ہر اک مصلحت کو

خود ہی بہتر جانتا ہے

پھر بھی بہتر تھا

ہمیں اس قریہء شاداب میں رہنے دیا ہوتا

وہیں ۔۔۔ اک نامکمل خواب میں

رہنے دیا ہوتا



2


میں تمہارے فسانے میں داخل ہوئی



شام کی ملگجی روشنی

راستوں کے کناروں پہ پھیلی ہوئی تھی

فضا، زندگی کی اُداسی سے لبریز اور زرد تھی

دُور تک ایک نیلے تسلسل میں بہتی ہوئی نم ہَوا 

سرد تھی

آسماں نے زمیں کی طرف سر جُھکایا نہیں تھا

ابھی اختِرشام نے اپنا چہرہ دِکھایا نہیں تھا

کہ جب میں نے بیکار دنیا کے ہنگام سے اپنا دامن چُھڑایا

دلِ مضطرب کو دِلاسا دیا

آگے جانے کی جلدی میں

جنگل پہاڑ اور دریا

کسی کو پلٹ کر نہ دیکھا

کہیں وقت کی ابتدائی حدوں پر کھڑے

اپنے پتھریلے ماضی کی جانب

بس اک الوداعی اشارہ کیا

خواب کا ہاتھ تھاما

نئے عزم سے سر کو اُونچا کیا

اور تمہارے فسانے میں داخل ہوئی

شام کی ملگجی روشنی راستوں کے کناروں پہ

اُس پَل تھمی رہ گئی

زندگی کی اُداسی سے لبریز ساری فضا 

دم بخود

اور ہَوا اپنے پاؤں پہ جیسے جمی رہ گئی




3


MUSE



شاید اس کو ہے محبت مجھ سے

پارناسس سے اتر آتا ہے

میری آنکھوں میں سما جاتا ہے

مجھ پہ افسوں کی طرح چھاتا ہے


شام رکتا ہے کبھی۔۔۔رات ٹھہرتا ہے کبھی

نیند میںخواب کا چہرہ بن کر

جاگتے میں مرا سایا بن کر


دلِ ویراںمیںپری زاد سا آتا ہے کبھی

میرے ہاتھوںکو محبت سے دباتا ہے کبھی

کبھی رخسار سے رخسار لگا دیتا ہے

اپنی آنکھوں کو اک آیئنہ بنا لیتا ہے

مجھ سے کہتا ہے کہ دیکھو ذرا اس چہرے پر

کسی محبوب کی قربت کی چمک ہو جیسے

نرم آنکھوںمیں ستاروںکی دمک ہو جیسے

جیسے آتی ہو رگِ جاںسے لہو کی یہ صدا

یا کہیں دور سے لہراتا ہو سُربانسری کا


چھیڑتا ہے کبھی بالوں کو، کبھی ہونٹوں کو

چومتا ہے کبھی پیشانی، کبھی آنکھوں کو

پھیلتا ہے مرے اطراف میں جادو کی طرح

اجنبی پھولوںکی خوشبو کی طرح

میرے پہلو سے لگے جب۔۔۔ تو لگا رہتا ہے

عاشقِ زار کے پہلو کی طرح


موجہء بادِ صبا بن کے کبھی

میرے ملبوس کو لہراتا ہے

آنکھ بھر کر جو اسے دیکھ لوں میں

جھوم جاتا ہے، مہک جاتا ہے


پاس رہنے کو۔۔۔بہت دیر تلک رہنے کو

آن کی آن میں بھر لیتا ہے کتنے بہروپ

کبھی دیوار پہ چغتائی کی تصویر کوئی

کبھی اس کانچ کے گلدان میں اک نرگسی پھول

کبھی روزن میں چمکتی ہوئی اک ننھی کرن

کبھی کھڑکی سے اُدھر پھیلتی۔۔۔چمکیلی دھوپ

دشت بن جاتا ہے۔۔۔جنگل کبھی بن جاتا ہے

کبھی مہتاب، کبھی آب، کبھی صرف سراب

دُھند ہو جاتا ہے۔۔۔ بادل کبھی بن جاتا ہے


میں جو چاہوں تو برستا ہے یونہی موسلا دھار

اور نہ چاہوں تو عجب عالمِ کم شب کی طرح

دلِ بے کل پہ اُتر آتا ہے


رات بھر۔۔۔ میرے سرہانے سے لگے لمپ کے ساتھ

ایک ہلکے سے اشارے سے ہے بجھتا، جلتا

کبھی اُس گوشہء خاموش میں اک بُت کی طرح

اور کبھی وقت کی رفتار سے آگے چلتا


موج میں آئے تو شب بھر نہیں سونے دیتا

خود ہی بن جاتا ہے بچھڑے ہوئے ساتھی کا خیال

کیف اور درد سے ہو جاتا ہے خود ہی سـیّال

مجھ کو اُس یاد میں تنہا نہیں رونے دیتا


شوق بنتا ہے کبھی۔۔۔عشق کبھی

وصل بنتا ہے کبھی۔۔۔ہجر کبھی

دل نے کب دیکھا تھا چہرہ اِس کا

عشق تھا پہلا شناسا اِس کا


عشق وہ دھوم مچاتا ہوا عشق

جسم پر رنگ جماتا ہوا عشق

دل کو اک روگ لگاتا ہوا عشق


عشق کے سارے ستم ساتھ مرے اس نے سہے

عشق کے ہاتھ سے جو زخم لگے۔۔۔اس نے بھرے

وصل اور ہجر کے افسانے سُنے اور کہے

ہفت اقلیم کے سب راز بتائے اس نے

الف لیلہ کے سبھی قصے سنائے اس نے

میری تنہائی میں الفاظ کا در باز کیا

میری پتھرائی ہوئی، ترسی ہوئی آنکھوں میں

نئی امید، نئے خواب کا آغاز کیا


خواب، خواہش سے چمکتا ہوا خواب

خواب، رنگوں سے مہکتا ہوا خواب

میری پلکوں سے ڈھلکتا ہوا خواب


خواب کے پیچھے مرے ساتھ بہت بھاگتا ہے

میں جو سو جاؤں تو یہ دیر تلک جاگتا ہے

دید کی طرح نگاہوں میں سمٹنے والا

غمِ جاناںکی طرح دل سے لپٹنے والا


شاید اِس کو ہے محبت مجھ سے

شوق بن جاتا ہے یہ، عشق میں ڈھل جاتا ہے

پھر مری زیست کا مفہوم بدل جاتا ہے

اپنے پہلو سے نہیں پَل کو بھی ہِلنے دیتا

کارِ دنیا۔۔۔۔غمِ دنیا کا بھلا ذکر ہی کیا

مجھ کو مجھ سے نہیں ملنے دیتا


میرے قالب میں سما جاتا ہے

میرے آیئنے میں آ جاتا ہے

چشمِ حیران کو غزلاتے ہوئے

شاعری مجھ کو بنا جاتا ہے


____________________________

میوز۔۔۔ یونانی اساطیر کے مطابق زیوس کی نو بیٹیاں، جن میں ہر ایک کسی علم اور فن کی دیوی ہے۔ یہ لفظ انگریزی میں شاعرانہ الہام کے طور پر استعمال ہوتا ہے، اسی لیے اسے صیغہء تذکیر میں استعمال کیا ہے۔

پارناسس۔۔۔ ایک اساطیری پہاڑ، جس پر یہ نو دیویاں رہتی ہیں



4



وہ ستارہ ساز آنکھیں



وہ ستارہ ساز آنکھیں

مجھے دور سے جو دیکھیں

تو مرے بدن میں جاگے

کسی روشنی کی خواہش

کسی آرزو کا جادو

کسی حسن کی تمنا

کسی عشق کا تقاضا


مرے بےقرار دل کو

بڑی خامشی سے چھو لے

کوئ نرم رو اداسی

کوئ موج زندگی کی

کوئ لہر سر خوشی کی

کوئ خوش گوار جھونکا


اسی آسماں کے نیچے

اسی بے کراں خلا میں

کہیں ایک سرزمیں ہے

جو تہی رہی نمی سے

رہی روشنی سے عاری

رہی دور زندگی سے

نہیں کوئ اس کا سورج

نہ کوئ مدار اس کا


اسی گمشدہ خلا سے 

کسی منزل خبر کو

کسی نیند کے سفر میں

کسی خواب مختصر میں

کبھی یوں ہی بے ارادہ

کبھی یوں ہی اک نظر میں

جو کیا کوئ اشارہ

وہ ستارہ ساز آنکھیں

مجھے کر گئيں ستارہ





5



سالگرہ



کہیں پناہ نہیں دشتِ رائگانی میں

عجیب موڑ ہے یہ عمر کی کہانی میں

خلا ہے چاروں طرف ۔۔۔ آسماں تلک ہے خلا 

زمین پاؤں کے نیچے سے جانے کب نکلی

نجانے کب سے خلا آ گیا ہے زیر ِ قدم

فلک تو خیر کبھی دوست تھا ۔۔۔ نہ ہو گا کبھی

زمیں کہاں ہے، کہاں ہے زمیں، کہاں ہے زمیں؟


اندھیرا چاروں طرف ۔۔۔ آسماں تلک پھیلا

اندھیرا پاؤں کے نیچے ۔۔۔ اندھیر آنکھوں میں

کہاں ہے دھوپ، کہاں چاندنی، چراغ کی لَو

وہ ملگجا سا اجالا کوئی ستاروں کا

جو رات بھر کو سہارا ہو راہداروں کا

کہاں ہے روشنی ۔۔۔ اِن منتظر مکانوں کے

اداس شیشوں سے چَھنتی ہوئی ۔۔۔ بکھرتی ہوئی

اداس راہگزر، ہر مکاں، مکین اداس

اداس سارا نگر، آسماں، زمین اداس

ہنسی کہاں ہے، کہاں ہے ہنسی، کہاں ہے ہنسی؟


کرن کی طرح چمکتی نہیں ہنسی کوئی

فضا کے دل میں دھڑکتی نہیں ہنسی کوئی

ملال چاروں طرف ۔۔۔۔ آسماں تلک ہے ملال

ملال، پاؤں کے نیچے کہ جس پہ ٹھہرا ہے

وجود ۔۔۔ سائے کے مانند، وہم کی صورت

خوشی کہاں ہے، کہاں ہے خوشی، کہاں ہے خوشی؟


سزا ہے چاروں طرف ۔۔۔ آسماں تلک ہے سزا

سزائے جرم نہیں یہ ۔۔۔ سزا ہے، ہونے کی

سزا ہے پاؤںکے نیچے کہ بے زمینی ہے

یہ زندگی ۔۔۔ جو کبھی زندگی تو تھی ہی نہیں

پر اب تو صرف گماں، صرف بے یقینی ہے

یقیں کہاں ہے، کہاں ہے یقیں، کہاں ہے یقیں؟


نہ کوئی دوست، نہ ہمدم، نہ آشنا کوئی

نہ بے وفا ہے کوئی اور نہ با وفا کوئی

کوئی بھی راہ نہیں ۔۔۔ دشتِ رائگانی میں

کہیں بھی موڑ نہیں، ہجر کی کہانی میں

گرہ اک اور لگی ۔۔۔ رشتہء زمانی میں




6


ہوائیں


ہوائیں مری زندگی کو اڑائے لیے جا رہی ہیں

ہوائیں مرے روز و شب کو 

خزاں دیدہ پتوں کی صورت

اڑائے لیے جا رہی ہیں



مجھے روز و شب کی ضرورت نہیں ہے

مرے روز و شب میں سیاہی ہے

زردی ہے، تنہائی ہے

روشنی سے تہی ملگجی صبحیں

لمبی دوپہریں

سلگتی ہوئی چند شامیں

بہت سرد اور زرد راتیں



مجھے زندگی سے محبت نہیں ہے

مری زندگی میں بہت روز و شب ہیں

بہت روز و شب سے بنے سال ہیں

سالہا سال ہیں

دشت اور بحر ہیں

چند برسوں پہ پھیلے ہوئے دشت

جن میں کہیں اک شجر کا سہارا نہیں

چند برسوں پہ پھیلے ہوئے بحر

جن کا کوئی بھی کنارہ نہیں

زندگی ۔۔۔۔ جس کے آغاز و انجام پر

میری خواہش کا کوئی اجارہ نہیں



روزو شب سے بنی زندگی

جس میں اک یاد ہے

جس میں اک خواب ہے

یاد سے روز و شب

خواب سے زندگی

خواہش آخری

خواہش آخری کو ہوائیں اڑائے لیے جا رہی ہیں

مری زندگی کو

ہوائیں اڑائے لیے جا رہی ہیں



7


VALENTINE,S DAY




کسے خط لکھیں؟

کس کو رنگیں ستاروں

دمکتے ہوئے سرخ پھولوں

دھڑکتی ہوئی آرزوؤں بھرا کارڈ بھیجیں

بھلا کس دریچے پر اب 

صبح سے پیشتر

نو شگفتہ گلابی کلی چھوڑ آئیں


کسے فون کر کے بتائیں

ہمیں اس سے کتنی محبت ہے

آغاز عہد جوانی کا معصوم نغمہ

وہ ساز غم عشق سے پھوٹتا اک ترانہ

محبت کا غمگین افسانہ ---

کس کو سنائیں؟


'محبت'

یہ اک لفظ دل کو بہت درد دینے لگا ہے

محبت ، کہ جس کے فقط ہم دریدہ دلوں نے

پرانے زمانوں میں کچھ خواب دیکھے

محبت ، کہ جس کے دیے زخم 

ہم نے ہمیشہ اکیلے میں چاٹے

محبت ، کہ جس کے بیانوں سے

سارے زمانوں سے

ہم نے فقط رنج پائے

ہماری صدا ---

اس محبت کے جنگل میں

گر کر کہیں کھو گئی ہے

ہماری ہنسی ---

اس محبت کے رستے میں

اک سرد پتھر پہ

تھک ہار کر سو گئی ہے

کوئی --- یادگار محبت کے اس 

سبز، چمکیلے دن میں

ہماری ہنسی کو، کسی جگمگاتی کرن سے

ذرا گدگدا کر جگائے

اندھیرے کے جنگل سے

گم گشتہ اک خواب کو ڈھونڈ لائے

جو بیتاب آنکھیں

وہاں باغ میں --- 

زرد پتّوں پہ بکھری پڑی ہیں

کوئی ان کو جا کر اٹھائے

'یہ ٹوٹا ہوا دل ---

محبت کے قابل ہے'

کوئی ہمیں بھی یہ مژدہ سنائے




8



کوئی تالی بجاتا ہے



ہماری زندگی کو اب خوشی سے خوف آتا ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

محل میں سینکڑوں کمرے ہیں

جن کی بیسیوں رہداریاں ہیں

بیسیوں رہداریاں ۔۔۔ پر پیچ ۔۔۔ پر اسرار

خوشیاں جن میں رنگا رنگ

چمکیلے، بھڑکتے پیرہن پہنے، گزرتی ہیں

بہت اِترا کے چلتی، جھانجھنیں جھنکاتی

اور بے وجہ اکثر کھلکھلاتی

غم زدوں کا منہ چڑاتی


غم، کسی ویران حجرے میں

بہت سنسان گوشے میں

بڑی بیچارگی سے منہ چھپاتا ہے

محل میں اب کسی کو

اس سے ملنی کی ضرورت ہی نہیں ہے

سچ یہ ہے اس کو 

محل میں پاؤں رکھنے کی اجازت ہی نہیں ہے


زندگی

بوسیدہ کپڑوں میں جواں تن کو چھپائے

شہر کی پر شور سڑکوں سے گزرتی ہے

پھٹے جوتوں میں اس کے پاؤں جلتے ہیں

گلابی گال ۔۔۔ لمبی دھوپ کی یکساں تمازت سے

پگھلتے ہیں

رفاقت کے لیے ترسی ہوئی ہے زندگی

منزل سے ہے ناآشنا

ہونے نہ ہونے کی ادھوری کشمکش میں مبتلا


غم، راستے پر زندگی کو دیکھتا ہے

دیکھتا رہتا ہے ۔۔۔۔۔ 

آخر زندگی پلکیں اٹھاتی ہے

محبت کے لیے ترسا ہوا غم، مسکراتا ہے

محل کے اک جھروکے سے کوئی تالی بجاتا ہے



9


چراغ ہو گئے ہیں ہم



ہوا کے ہاتھ پر چراغ رکھ دیا

تو آسماں تلک فضا میں ۔۔۔ نور کی کوئی لکیر بن گئی

مگر نگاہ کو زمیں پہ راستہ نہیں ملا


نگاہ سے نگاہ تک

زمیں کے سارے راستوں پہ تیرگی جمی رہی

سفر کی اور ہم سفر کی آرزو

رفاقتوں کی نا شناس دھند میں تھمی رہی


وہ خواب کا چراغ تھا

جو گہرے کالے جنگلوں کی گود میں

چھپی ہوئی، ڈری ہوئی، اکیلی رات کے لیے 

جلا رہا


وہ یاد کا چراغ تھا

جو دور کے کسی حسیں دیار میں

بسے ہوئے کسی رفیق کے لیے ۔۔۔ ہوا کے دوش پر رکھا

تو پھر سدا رکھا رہا


ڈری ہوئی سیہ شبوں کے نام پر

رفاقتوں، محبتوں کے نام پر

بہت چراغ راہ میں رکھے گئے

کئی بجھے ۔۔۔ 

مگر بہت سے جل رہے ہیں آج تک



بہت سے لوگ اپنے اپنے راستوں پہ جا چکے

بہت سے لوگ اپنی اپنی منزلوں کو پا چکے

ہم اپنے سائے کی طرح

ہم اپنی یاد کی طرح

وہیں کھڑے ہیں آج تک




10


بارشوں کے بعد



بارشوں کے بعد

کالا آسماں خاموش تھا

گہری ہری گیلی زمیں خاموش تھی

اور بھیگی بھیگی دھوپ میں

اُس باغ کے سارے شجر خاموش تھے


اُس باغ میں پھیلا ہوا

وہ دن بھی

سر سے پاؤں تک بھیگا ہوا تھا

بارشوں کے بعد کی ٹھنڈی اداسی میں

چنبیلی کی بہت ہی تیز خوشبو کی طرح

اک یاد تھی ۔۔۔ جو دل کو شعلاتے ہوئے

تن سے لپٹتی جا رہی تھی


تن بہت خاموش تھا ۔۔۔ اور یاد میں

لپٹا ہوا تھا

تن، جو اپنی آگ میں بھیگا ہوا تھا





11


تم اگر آؤ


تم اگر بارش کے فوراً بعد مجھ سے ملنے آؤ

روشنی کو ساتھ لے آنا

میں اپنے خواب پر جُھکتے گھنے بادل کے گہرے سائے میں

جل کر چمکنا چاہتی ہوں


تازگی کو ساتھ لے آنا

میں اپنے جسم کے دیوار و در پر چھائے

بوجھل حَبس میں

کِھل کر مہکنا چاہتی ہوں


زندگی کو ساتھ لے آنا

میں اپنی آنکھ کی ہلکی نمی میں 

دل کی ویرانی میں

اس پیکر میں ڈھلنا چاہتی ہوں


تم اگر بارش کے فوراً بعد مجھ سے ملنے آؤ

عشق کی دیوانگی کو، اپنے پن کی سرخوشی کو، بے خودی کو

شاعری کو

ساتھ لے آنا



 

13


سمندر اداس ہے



سمندروں کی سرمئی ہوائیں کیوںاداس ہیں؟

ہواؤں کے مزاج میں ۔۔سمندروں کی تند بو رچی ہوئی

نمی کی اور مچھلیوں کے جسم کی کثیف بو

یہ مردہ مچھلیوں کے اور سیپیوں کے سرد جسم

ساحلوں کی زرد زرد ریت پر

وہ جیتی جاگتی شریر مچھلیوں کے مضطرب بدن کی بو کہاں گئی

سمندروں کے ساحلوں کی زرد ریت آج کیوں اداس ہے؟


یہ ٹوٹتی ہوئی سی موج موج نے اداس ساحلوں سے آج کیا کہا

سمندروں کے خوابناک ساحلوں پہ کیسا بے حساب وقتِ شوق بہہ گیا

جو اس سے پہلے لوٹ کر نہ آ سکا ۔ جو اس کے بعد لوٹ کر نہ آئے گا

سمندروں کی موج موج کا وہ نیلگوں اتار اور چڑھاؤ کیا ہوا؟

وہ صبح کا گلاب رنگ سا افق ۔۔ وہ شام کی سیاہی میں گھلی شفق

وہ پانیوںمیںآفتاب کا رخِ نگارِ آتشیں

سمندروں کے ساحلوں پہ وہ بہارِ آتشیں

بہار کیوں اداس ہے؟


بہار کے پرند کیوں اداس ہیں؟

سمندروں کا حسن ۔۔۔۔ساحلوں کی جان۔۔۔۔ آبی جاندار

ساحلوں پہ جھمگٹا کیے ۔۔۔ سفید و سرمئی حسیں پرند

نرم خو اڑان والے ۔۔۔ اونچی اونچی تان والے ۔۔۔موج موج پر رواں

وہ موج کے، ہواکے، سرمئی فضا کے رازداں


سمندروں پہ کشتیوں کا خوش نظر خرام کیوں اداس ہے؟

سفید بادباں ۔۔۔ ابھی تو دور کے کسی سفر کے واسطے کُھلے نہیں

ابھی مسافروںکے دل۔۔۔ نئی زمیں کی جستجو میں جھوم کر کِھلے نہیں

مسافروں کے نرم دل نجانے کیوں اداس ہیں

وہ کشتیوں میں آبِ نیلگوں پہ دور دور جاتے مرد و زن کے 

رنگ رنگ پیرہن

مسافروں کے ربطِ عام سے بدن کی وہ مہک

نگاہ میں عجیب سا وہ خوف و اشتیاق ۔۔۔ ایک اجنبی زمین کا

مگر جبیں پہ دھوپ سی چمک دمک

یہ دھوپ کیوں اداس ہے؟


یہ دھوپ ۔۔۔ ساحلوں کی سرد اور سیاہ ریت پر پڑی ہوئی

یہ مردہ مچھلیوں کی طرح بے وقار اور اداس

سبز پانیوں سے مل کے

بوند بوند تابدار کرنے والی ۔۔۔ گہر گہر آبدار کرنے والی

باوقار دھوپ کیا ہوئی؟

وہ بادبانی کشتیوں پہ دور تک ۔۔۔۔ مسافتوں کا ساتھ دینے والی

اگلے ساحلوں پہ انتظار کرنے والی ۔۔۔ بے شمار دھوپ کیا ہوئی؟ِ

یہ ساحلوںکا شوقِ انتظار کیوںاداس ہے؟


جہاز راں، جو اگلے ساحلوںکی سمت ۔۔۔ مستقل سفر کریں ۔۔۔ کہاں گئے؟

سفید،نیلی وردیوںمیں کسرتی بدن ۔۔۔ جواںجہاز راں

کمر میں جگمگاتی سرخ اور سنہری پیٹیاں کسے ہوئے

وہ لمبی زندگی پہن کے دور جاتے

گہرے پانیوں پہ اجنبی زمیں کا ۔۔۔ حیرتوں میں ڈوبتا ۔۔۔ عجیب راستہ بناتے

عزم سے بھرے جواں جہاز راں

وہ دیو ہیکلوں کو اپنے ہاتھ، اپنی آنکھ کے ۔۔۔۔خفی اشارے سے چلاتے ۔۔۔ 

مسکراتے

آج کیوں اداس ہیں؟


عجیب مرحلوں کی سمت ۔۔۔ اجنبی مہیب ساحلوں کی سمت

اک سفر کا عزم کیوں اداس ہے؟


ازل سے تا ابد حیات کا سفر ۔۔۔ ازل سے تا ابد یہ بحر نیلگوں 

یہ اونچی اٹھتی ۔۔۔ آسماں کو چھوتی لہر لہر میں

تموّجِ حیات بھی ۔۔۔ شکوہِ کائنات بھی ۔۔۔ فنا بھی اور ثبات بھی

ثبات کیوں اداس ہے؟


فنا کا راستہ ابھی نہیں ملا ۔۔۔ ثبات کا پتہ ابھی نہیں ملا

سفر میں آبِ نیلگوں ۔۔۔ سفر میں سب پرند ہیں

سفر میں سب جہاز راں۔۔۔ سفر میں یہ زمینِ جاں ۔۔۔ 

سفر میں سبز آسماں


مگر یہ خوابِ زندگی ۔۔۔ یہ سطحِ آب پر ۔۔۔ نگاہ میں، حبابِ زندگی

سرابِ زندگی یہی ۔۔۔ یہی ہے آبِ زندگی

سمندروں پہ پھیلتا ۔۔۔ سراب کیوں اداس ہے؟

یہ خوابنائے خواب ۔۔۔ کیوں اداس ہے؟




14


دوبارہ وہی خواب ِہستی 



وہی خواب اک بار پھر دیکھنا ہے

جسے اُس شبستان ِراحت میں مخمور دیکھا تھا میں نے


عجب آرزو ہے

جو گیلی زمیں کی ہری کوکھ سے پھوٹ کر

میرے ویران تن میں ۔۔۔ تناور شجر بن گئی ہے

کہ اس سبزۂ نرم پر

نیلگوں آسمانوں کے سائے میں 

اک بار پھر اپنی پلکیں جو کھولوں

تو لرزیدہ پلکوں پہ 

دنیا کے حیران رنگوں کی دستک سنوں

اپنی ہی خاک سے، اجنبیوں کے مانند پہلا تعارف کراؤں


ہر اک سمت سے '' مرحبا '' کہتی نیلی فضا میں

مرا نرم پتوں کا ملبوس لہرائے

سورج کی نارنجی کرنیں مرے سر پر اک تاج پہنائیں

سیبوں کے باغات سے بہہ کر آتا ہوا آب ِشیریں

مرے خشک ہونٹوں کو چھو لے

ہوائیں، جو شہتوت کے گرم جنگل سے آئیں

تو سانسوں میں ایسی مہک لائیں

جو اُس کے پہلے تنفس میں تھی

جس کو اک صبح، نوزائیدہ نیند سے جاگ کر

دائیں پہلو میں ۔۔۔ سبزے پہ خوابیدہ پایا تھا میں نے


مری مضطرب روح کو

پھر وہی خواب ِراحت فزا دیکھنا ہے

جسے صبح ِہستی سے اک لمحہ پہلے

کسی گم شدہ نیند کے راستے سے ۔۔۔ کوئی گل سمجھ کر

اٹھایا تھا میں نے





15



باغ



یونہی جھانکا تھا روشنی نے ابھی

باغ میں دور تک اندھیرا تھا


بادلوں پر بنا ہوا تھا باغ

باغ میں وہم کے تھے سب اشجار

باغ میں تھے گماں کے سارے پھول

دھند سی راستوں پہ چھائی تھی

اور رستوں کا کچھ نہیں تھا سراغ


شرق اور غرب یا شمال و جنوب

کوئی ملتا نہ تھا طلوع و غروب

کس طرف آسماں کدھر ہے زمیں

دیکھنے والا کوئی تھا ہی نہیں

باغ میں دور تک اندھیرا تھا


یونہی گزرا ہوا کا اک جھونکا

یا پرندے کی پھڑپھڑاہٹ سے

پانیوں میں ہوئی کوئی ہلچل

یا فرشتے کی نرم آہٹ سے

چونک کر دیکھا اک کلی نے ابھی


خاک کی منجمد نگاہوں پر

خواب روشن کیا کسی نے ابھی

باغ کے بے پنہ اندھیرے میں

آنکھ کھولی ہے زندگی نے ابھی