ثمینہ راجہ


اس پری خانہء خیال میں 

ایک سو پانچ پریاں ہیں، اور پانچ ہیں ان کی شہزادیاں

 پانچ بحریں ۔ 

یہ تقریباً پانچ ماہ میں نازل ہوئیں ۔ اپنی رضا سے

اپنی خوشی سے، اپنی ہی ترتیب سے۔ 

اس وفور سے کہ ان کے ریشمیں پروں کی سرسراہٹ 

اور نقرئی گھنٹیوں جیسی چہچہاہٹ سے

 زمین اورآسمان کے درمیان جو کچھ تھا، گونج اٹھا ۔

انہوں نے اجنبی پھولوں کی خوشبو کی طرح

مجھے چاروں طرف سے گھیر لیا ۔

 سنبھلنے کی مہلت ہی نہیں دی ۔ 

کیا سب ہی کے ساتھ ایسا ہوتا ہے؟ سب شاعروں کے ساتھ؟ 

مجھے نہیں معلوم

مجھے تو ایسا لگا جیسے تمام 'میوزز' نے

 ایک ساتھ پلٹ کر مجھ پر نظر کی اور بس

 یہ آنکھیں جگمگا اٹھیں اور اس دل کی فضا

قاف کی سی ہو گئی ۔ 

سنبھلنے کی ذرا سی بھی مہلت ملتی تو مجھے

ان پری پیکروں سے کچھ سوال کرنا تھے ۔

 یہ کہ کن خوابوں کی 

تحسین کے لیے انہیں قرطاس پر اتارا جائے؟ 

کن نظروں کی تسکین کے لیے ان کی تصویر کشی کی جائے؟ 

کون ہے ان کے جمال کا طلب گار؟ 

کون ہے ان کے کمال کا پرستار؟

سخن کے بازار میں ایک سے ایک دکان سجی ہے ۔

 سب بنا بنایا، ڈھلا ڈھلایا 

''برائے فروخت'' کی تختی پیشانی پر سجائے موجود

کون دکاندار ہے، کون خریدار، کوئی پہچان نہیں

کون ہوس کار ہے، کون عاشق ِ زار، کوئی امتحان نہیں

لیکن حیرت تو یہ ہے کہ ان سوالوں کی اگر مہلت نہیں ملی ،

 تو نوبت بھی نہیں آئی ۔ 

کیونکہ یہ پریاں بے حد زیرک و دانا ہیں ۔

 جانتی ہیں، جمال و فن کے اس سفر میں 

انہیں کہاں قیام کرنا ہے ۔ 

پہچانتی ہیں

کس دل میں دکان سجی ہے 

اور کس دل میں پری خانہ 


ثمینہ راجہ

-------------

2002



1


دشت میں اک طلسم آب کے ساتھ

دور تک ہم گئے سراب کے ساتھ


پھر خزاں آئ اور خزاں کے بعد

خار کھلنے لگے گلاب کے ساتھ


رات بھر ٹوٹتی ہوئ نیندیں

جڑ گئیں سحر ماہتاب کے ساتھ


ہم سدا کی بجھے ہوئے تھے

وہ تھا پہلی سی آب و تاب کے ساتھ


چھوٹی عمروں کی پہلی پہلی بات

کچھ تکلف سے کچھ حجاب کے ساتھ


اور پھر یہ نگاہ خیرہ بھی

ڈوب جائے گی آفتاب کے ساتھ


رات کی طشتری میں رکھی ہیں

میری آنکھیں کسی کے خواب کے ساتھ


اس گلی میں نہ کیسے کوئی جائے

شام کو اس دل ِ خراب کے ساتھ


یہ فقط رسم ہی نہیں اے دوست

دل بھی شامل ہے انتساب کے ساتھ




2


جیسے یہ درد سے بنی ہوئ تھی

شام اس طرح کاسنی ہوئ تھی


رات کی اپنی روشنی تھی بہت

دھوپ کے جیسی چاندنی ہوئ تھی


کوئ ذی روح دور دور نہ تھا

اور خموشی بہت گھنی ہوئ تھی


کون تھا بن میں بھیگنے والا

چادر ابر کیوں تنی ہوئ تھی


گونجتی تھی ہر ایک سانس کے ساتھ

اک تمنا جو راگنی ہوئ تھی


ایک مدت کے انتظار کے بعد

اس دریچے میں روشنی ہوئ تھی


آئنہ کیوں سیاہ لگتا تھا؟

کیا اندھیرے سے میں بنی ہوئ تھی




3


رنگ آنے لگا ہے محفل پر

خامشی چھا رہی ہے اس دل پر


شام اتری ہے جل پری کی طرح

روشنی ہو گئی ہے ساحل پر


جان خود اس کی نذر کرتے ہیں

کیا بھروسا ہے اپنے قاتل پر


راستون سے جڑے ہوئے رستے

کون رکتا ہے سنگ ِ منزل پر


زیست کے راز ہائے گونا گوں

انحصار ایک چشم غافل پر


دشت میں رات ہے اداسی ہے

قیس پر، کارواں پہ، محمل پر


غور کرتے ہیں مسکراتے ہیں

ایک کے بعد ایک مشکل پر


تم کہاں، ہم قصور وار ہوئے

اپنے اک اعتبار باطل پر


عشق کی انتہا اگر غم ہے

ہم بھی نازاں ہیں اپنے حاصل پر



 

4


ایک مدت سے یوں ملے ہی نہیں

جیسے تم زندگی میں تھے ہی نہیں


جس طرح جھوٹ تھا وہ پاگل پن

جیسے الفت کے غم سہے ہی نہیں


جیسے ہم مرکزِ نگاہ نہ تھے

جیسے اس دل میں بسے ہی نہیں


جیسے وہ سر کبھی جھکا ہی نہ تھا

جیسے آنسو کبھی بہے ہی نہیں


کیا کوئی اور خواب دیکھتے ہو

یا تم اب خواب دیکھتے ہی نہیں؟


ہم نہ کرتے کبھی گلہ تم سے 

خیر، اب تو وہ رابطے ہی نہیں


آخرِکار ۔۔۔ جینا سیکھ لیا

خوش رہے ہم، فقط جیے ہی نہیں 


جب رہائی ملی پرندوں کو

تو کھلا، بال و پر ملے ہی نہیں


کاروبارِ حیات زور پہ تھا

ہم مگر اُس طرف گئے ہی نہیں




5



6



آسماں کوئی جو تا حد نظر کھولتا ہے

طائر جاں بھی یہ بھیگے ہوئے پر کھولتا ہے


نام آتا ہے مرا ہجر کی سرگوشی میں

تیری محفل میں کوئی لب بھی اگر کھولتا ہے


دور سے ایک ستارہ چلا آتا ہے قریب

اور اس خاک پہ اک راز سفر کھولتا ہے


لوٹنے والے ہیں دن بھر کے تھکے ہارے پرند

اپنے آغوش محبت کو شجر کھولتا ہے


موجہء باد صبا بھی جو کبھی چھو جائے

ایسا لگتا ہے مرا زخم جگر کھولتا ہے


غیر سب جمع ہوئے آتے ہیں پرسش کے لیے

کوئی اس حال میں کب دیدہء تر کھولتا ہے


کون کرتا ہے زمانوں کا سفر اس دل تک

دیکھئے کون اب اس قصر کا در کھولتا ہے




7


کب چراغوں کی ضرورت ہے ملاقاتوں میں

روشنی ہوتی ہے کچھ اور ہی ان راتوں میں


سر پہ جھکتا ہوا بادل ہے کہ اک یاد کوئی 

اور بھی گہری ہوئی جاتی ہے برساتوں میں


ایک خوشبو سی کسی موسم ِ نادیدہ کی

آخری چیز بچی عشق کی سوغاتوں میں


یہ جو بنتا ہے اجڑتا ہے کسی خواب کے ساتھ

ہم نے اک شہر بسا رکھا ہے ان ہاتھوں میں


نقش کچھ اور بنائے گئے سب چہروں پر

بھید کچھ اور چھپائے گئے سب ذاتوں میں


شاعری،خواب،محبت، ہیں پرانے قصے

کس لیے دل کو لگائے کوئی ان باتوں میں


ہفت خواں یوں تو ملے عشق کے اس رستے پر

ہجر ہی منزل ِ مقصود ہوئی ، ساتوں میں


دست بردار ہوئے ہم تو تمناؤں سے

عمر گزری چلی جاتی تھی مناجاتوں میں




8



صورت صبح بہاراں چمن آراستہ ہے 

چہرہ شاداب ہے اور پیرہن آراستہ ہے


شہر آباد ہے اک زمزمہء ہجر سے اور

گھر تری یاد سے اے جان من ! آراستہ ہے


جیسے تیار ہے آگے کوئی ہنگامہء زیست

اس طرح راہ میں باغ عدن آراستہ ہے


کوئی پیغام شب وصل ہوا کیا لائی

روح سرشار ہوئی ہے، بدن آراستہ ہے


اے غم دوست! تری آمد خوش رنگ کی خیر

تیرے ہی دم سے یہ بزم سخن آراستہ ہے


دل کے اک گوشہء خاموش میں تصویر تری

پاس اک شاخ گل یاسمن آراستہ ہے


رامش و رنگ سے چمکے ہے مرا خواب ایسے

نیند میں جیسے کوئی انجمن آراستہ ہے


اس نے سورج کی طرح ایک نظر ڈالی تھی

رشتہء نور سے اب بھی کرن آراستہ ہے


کیا کسی اور ستارے پہ قدم میں نے رکھا

کیسی پیراستہ دنیا، زمن آراستہ ہے


کیسے آئے گا زمانہ مجھے ملنے کے لیے

میرے رستے میں تو دنیائے فن آراستہ ہے 




9



10




ہم کسی چشم فسوں ساز میں رکھے ہوئے ہیں

خواب ہیں،خواب کے انداز میں رکھے ہوئے ہیں


تاب، انجام محبت کی بھلا کیا لاتے

نا تواں دل، وہیں آغاز میں رکھے ہوئے ہیں


جلتے جائیں گے ابھی اور چراغوں سے چراغ

جب تری انجمن ناز میں رکھے ہوئے ہیں


اے ہوا! اور خزاؤں کے علاوہ کیا ہے؟

وسوسے کیوں تری آواز میں رکھے ہوئے ہیں


اک ستارے کو تو میں صبح تلک لے آئی

بیشتر، رات کے آغاز میں رکھے ہوئے ہیں


کٹ کے وہ پر توہواؤں میں کہیں اڑ بھی گئے

دل یہیں حسرت پرواز میں رکھے ہوئے ہیں


زندگی آج طلب گار ہے کچھ لمحوں کی

جو کسی چشم پر اعجاز میں رکھے ہوئے ہیں


ہم تو ہیں آب زر عشق سے لکھے ہوئے حرف

بیش قیمت ہیں،بہت راز میں رکھے ہوئے ہیں




11


دور کہیں تارا ٹوٹا تھا

سویا رستا جاگ گیا تھا


سر پر تاج نہ دل میں نخوت

وہ کس دیس کا شہزادہ تھا


لہریں لیتے اس پانی پر

شیشے کا اک فرش بچھا تھا


ایک کنارے پر میں ششدر

دوسری جانب تو بیٹھا تھا


بیچ میں پھیلی ساری دنیا

تیرا میرا ملنا کیا تھا


تیری آنکھیں کیوں بھیگی تھیں

ہجر تو میرے گھر اترا تھا


دھوپ ہوئی تھی شہر سے رخصت

اندھیارا امڈا آتا تھا


سرد ہوا کا بازو تھامے

چاند بہت خاموش کھڑا تھا


خواب کے اندر نیند بھری تھی

نیند کے دل میں خواب چھپا تھا


آخر کو اک پھول سنہرا 

ان ہونٹوں پر مرجھایا تھا 




12



دروازے پر قفل پڑا ہے

کون اس پر دستک دیتا ہے


تنہائی ہے تیز ہوا ہے

میرا غم سوکھا پتا ہے


دور تلک پھیلا یہ صحرا 

کس کا رستہ دیکھ رہا ہے


رستے سے کچھ دور بسی اک

تنہائی کی محل سرا ہے


تیری یاد وہاں بکھری تھی

میرا درد یہاں پھیلا ہے


پیچھے زخموں کا جنگل تھا

آگے خون کا اک دریا ہے


پھول خزاں میں مرجھاتے ہیں 

میرے دل کا پات ہرا ہے


چونک گئی ہوں جیسے سچ مچ

میرے پیچھے کوئی کھڑا ہے


لمس تیرا نہ کہیں کھو جائے

مٹھی کھولتے ڈر لگتا ہے


اب تو کسی کا آنا مشکل

آدھی رات ہے، سرد ہوا ہے





13



نیند میں کیسی نیند بھری تھی

آنکھ سے دل تک بے خبری تھی


سپنے میں اک شیش محل تھا

باغ کے اندر بارہ دری تھی


نیلا امبر ، کالا بن تھا

پھول گلابی، شاخ ہری تھی


میرا چہرہ ان آنکھوں میں

خوش فہمی یا خوش نظری تھی


جیون کیسا رنگ بھرا تھا

دنیا کتنی بھاگ بھری تھی


خواب میں کون قریب آیا تھا

کس آہٹ سے نیند ڈری تھی


طشت میں تھا اک زہر کا پیالہ

ساتھ ھی اک تلوار دھری تھی


میرے دل میں اس کا غم تھا

اس کے جام میں لال پری تھی




14



15




16



فضائے شہر محبت بدلنے والی ہے

دل تباہ کی قسمت بدلنے والی ہے


بدلنے والی ہے اب سے ردائے لالہ وگل

ہوائے دشت کی نیت بدلنے والی ہے


پھر ایک جلوہء صد رنگ کے تسلسل میں 

نگاہ آئنہ ، حیرت بدلنے والی ہے


بس ایک بار تجھے ہم قریب جاں دیکھیں

پلٹ کے دیکھ، یہ حسرت بدلنے والی ہے


کہیں پہ نیم اجالا، کہیں پہ تاریکی

شب ملال کی صورت بدلنے والی ہے


قمر نے ایک نئے برج میں قدم رکھا

زمیں پہ ہجر کی ساعت بدلنے والی ہے


فسون مرگ میں ہے زندگی کئی دن سے

سو اپنا جامہء وحشت بدلنے والی ہے


ہمیں تو عشق نے ہجر و وصال میں رکھا

سنا ہے وجہ رفاقت بدلنے والی ہے


خبر ہوئی کہ ہے دل ہی نگار خانہء حسن

نظر کی سمت مسافت بدلنے والی ہے


نئی صدی ہے اور اس کے نئے تقاضے ہیں

ہر آدمی کی ضرورت بدلنے والی ہے




17



چراغ بام توہو، شمع انتظار تو ہو

مگر ہمیں ترے آنے کا اعتبار تو ہو


کسی کی دید تو ہو،نیند کا سراب سہی

خدائے خواب! ہمیں اتنا اختیار تو ہو


کھلیں گے ہم بھی برنگ گل و بسان شرر

ترے نگر میں چراغاں تو ہو، بہار تو ہو


وہ ابر ہے تو کسی خاکنائے پر برسے

جو خاک ہے، تو کسی راہ کا غبار تو ہو


ہوا کے ساتھ ھی آئے، ہوا کے ساتھ ہی جائے

پر ایک رشتہء جاں اس سے استوار تو ہو


جو زندگی کی طرح سامنے رہا ہر دم

وہ راز اپنی نگاہوں پہ آشکار تو ہو


ہے جس کا ورد شب و روز کے وظیفے میں

در وفا، تری تسبیح میں شمار تو ہو


یہ کیا، وہ سامنے ہو اور دل یقیں نہ کرے

نگاہ شوق پہ تھوڑا سا اعتبار تو ہو


تمام عمر ستاروں کے ساتھ چلتے رہیں 

فلک پہ ایسا کوئی خطّ رہگزار تو ہو



 

18



ہوائے یاد نے اتنے ستم کیے اس شب

ہم ایسے ہجر کے عادی بھی رو دیے اس شب 


فلک سے بوندیں ستاروں کی طرح گرتی ہوئی

بہک رہی تھی وہ شب جیسے بے پیے اس شب


بھڑکتے جاتے تھے منظر بناتے جاتے تھے

ہوا کے سامنے رکھے ہوئے دیے اس شب


عجب تھے ہم بھی کہ دیوار نا امیدی میں 

دریچہ کھول دیا تھا ترے لیے اس شب


چراح بام نہ تھے، شمع انتظار نہ تھے

مگر وہ دل کہ مسلسل جلا کیے اس شب


وہ چاک چاک تمنا،وہ زخم زخم بدن

تری نگاہ دلآرام نے سیے اس شب 


خبر ہوئی کہ جلاتا ہے کس طرح پانی

وہ اشک شعلوں کے مانند ہی پیے اس شب 


وہ شب کہ جس کے تصور سے جان جاتی تھی

نجانے صبح تلک کس طرح جیے اس شب




19


کچھ اجنبی سی صداؤں سے بات کی ہم نے

جب ایک شام ہواؤں سے بات کی ہم نے


اُنہیں بتایا پتہ آسمان والے کا

زمیں کے سارے خداؤں سے بات کی ہم نے

تھے اپنے خواب کے اک داستاں سرا ہم بھی

نگر کے خواب سراؤں سے بات کی ہم نے

سہارا کوئی نہ تھا دھوپ میں رفیقوں کا

سو ایک پیڑ کی چھاؤں سے بات کی ہم نے


دوبارہ اِس دل ِ مایوس میں اترنے کو

پلٹ کر آتی دعاؤں سے بات کی ہم نے

سفر کے بعد ضروری ہے ایک منزل بھی

چنانچہ راہنماوں سے بات کی ہم نے


جدھر ذرا سا گماں تھا تمہارے ہونے کا

ادھر سے آتی ہواؤں سے بات کی ہم نے


ہم اپنی خامشی سب کو کہاں سناتے ہیں

یہی بہت ہے خلاؤںسے بات کی ہم نے


سب اپنے طالع ِ بیدار کی تلاش میں تھے

جہاں کے بخت رساؤںسے بات کی ہم نے


یہ اہل ِعشق بھی کیا خاک سے بنے ہوں گے؟

عجیب شعلہ نواؤں سے بات کی ہم نے 




20


 

21



پھول روش روش پہ تھے، رستہ ء صد چراغ تھا

کون کہے گا اِس جگہ دشت نہیں تھا، باغ تھا


اِس طرح درد سے بھرے اِس طرح ٹوٹ کر گرے

جیسے کہ چشم تھی سبو جیسے کہ دل ایاغ تھا


جب سے نگاہ ہو گئی اخترِ شام کی اسیر

شب کی نہ کچھ خبر ملی دن کا نہ کچھ سراغ تھا


ہم نے بھی خود کو حجرہء خواب میں رکھ لیا کہیں

کوئی جو کم نگاہ تھا کوئی جو کم فراغ تھا


وصل ِ زمین و آسماں دیکھ چکی تھی ایک بار

چہرہء شام ِ انتظار اس لیے باغ باغ تھا


اس میں تو کوئی شک نہیں ہم میں چمک دمک نہیں

آئنہء نگاہ ِ دوست آپ بھی داغ داغ تھا


سیرِ جہاں کے باب میں دونوں ہی سَیر چشم تھے

ایک کو صد ِ راہ دل، اک کے لیے دماغ تھا


صبح ہوئی تو سامنے چہرہء شہر ِ بے تپاک

رات ہوئی تو منتظر خانہء بے چراغ تھا



 

22



دورکہیں کِھلا ہوا خواب تھا مرغزار میں

دیر تلک چلے تھے ہم نیند کے شاخسار میں


موج ِخزاں سے قبل ہی ایک ہَوائے ہجر نے

لوٹ لیا چمن مرا وہ بھی بھری بہار میں


تجھ کو وہ عہد ِ مختصر یا د نہیں رہا مگر

کوئی رہا ھے عمر بھر محشر ِ انتظار میں


اب نہ خدا کرے کہ ہم پھر تری آرزو کریں

اب ہو خدا کرے یہ دل اپنے ہی اختیار میں


آج یہ کس نے گرم ہاتھ شانہء غم پہ رکھ دیا

کون دلاسا دے گیا لمحہء سوگوار میں


کس کے لبوں پہ میرا نام گُل کی طرح چٹک گیا

کس نے اضافہ کر دیا موسم ِ خوشگوار میں


ایک نئی ہَوا کے بعد منظرِ دشت اور ہے

نقش ِ قدم کا ذکر کیا درد کے اس غبار میں


جشن ِ گلُ و نمائش ِ باغ سے دُور ہم کِھلے

ایک نگاہ کے لیے کون لگے قطار میں


راہ مین بیٹھتے گئے تھک کے مریض ِ بے دِلی

منزل ِ شوق کے اسیر اب بھی اُسی حصار میں



 


23



شام کو ہو کے بے قرار یاد نہیں کِیا تجھے

کب یہ ہوا کہ بار بار، یاد نہیں کِیا تجھے


خواب سجا کےجی لیےدل سےلگا کےجی لیے

رشتہء دردِ استوار، یاد نہیں کِیا تجھے


دانش ِخاص ہم نہیں یوں توجُنوںمیں کم نہیں

دل پہ ہے اتنا اختیار، یاد نہیں کِیا تجھے


فصل ِ بہار پھر خزاں،رنگِ بہار پھرخزاں

آئی ہے پھر سے اب بہار یاد نہیں کِیا تجھے


اشک جو ختم ہو گئےخود سے لِپٹ کےسوگئے

کوئی نہیں تھا غمگسار، یاد نہیں کِیا تجھے


کتنی کہانیاں کہیں، کتنے فسانے بُن لیے

بن گئے داستاں نگار، یاد نہیں کِیا تجھے


سخت اداس تھا نگر،سہمے ہوئے تھے بام و در

دور تھے سارے رازدار، یاد نہیں کِیا تجھے


ایک چراغ راہ میں دیر تلک جلا کِیا

بجھ گئی چشم ِ سوگوار یاد نہیں کِیا تجھے


ڈھونڈ لیا ترا بدل کہتے ہی کہتے اک غزل

سوئے ہیں اہل ِ انتظار، یاد نہیں کِیا تجھے




24


بات میں تیری لطف تھا آنکھ میں دلبری رہی


شاخ ِ نہال ِ عشق یوں آج تلک ہری رہی



ہجر کی شب میں کوئی دل،لیلٰی مثال ہو گیا


خاص کسی کے واسطے قیس کی ہمسری رہی



رنگ لگا لیے کبھی، پھول سجا لیے کبھی


ذوق ِ جمال تھا نہ تھا، آئنہ پروری رہی



رنگِ حیات دیکھ کر، گل کا ثبات دیکھ کر


سہمی ہوئی تھی بوئے گل،باد ِصبا ڈری رہی



سِحرِ جمال میں رہے، ایک خیال میں رہے


شیشہء دل میں آج تک جیسے کوئی پری رہی



دل بھی حرم سے کم نہ تھا،اس میں بسا تھا اک خدا


ساتھ کہیں پہ عزتِ پیشہء آذری رہی



موسم ِ گل رہا یہاں، یا رہی خیمہ زن خزاں 


خواب کی شاخسار تو یونہی ہری بھری رہی



مصحف ِ دل پہ لکھ دیا حرفِ طلائی عشق کا 


لفظ گری کے ساتھ ساتھ ہاتھ میں زر گری رہی




 

25



صبح کو بزم ِ ناز کا رنگ اڑا ہوا ملا

پھول جلے ہوئے ملے دیپ بجھا ہوا ملا


دل کا نصیب ہے اسےگرغم ِ دوست مل سکے

ایسا نگیں بھلا کسے رَہ میں پڑا ہوا ملا


ٹوٹ کے گِر چکا تھا اور ہم نے چنی تھیں کرچیاں

آج یہ آسمان پھر سر پہ تنا ہوا ملا


جب بھی فسانہء فراق شمع ِ خموش سے سنا

خوبی ِ اتفاق سے پہلے سنا ہوا ملا


شام کے ساتھ دُور تک چلتا ہوا وہ راستہ

آج تو اپنے پاؤں کے نیچے بچھا ہوا ملا


ہجر کدے میں رات کو روز کی طرح آج بھی

نیند بجھی بجھی ملی، خواب جلا ہوا ملا


کوئی اٹھا تو دھوپ سا سارے افق پہ چھا گیا

اپنے ہی سائے سے کہیں کوئی ڈرا ہوا ملا


گھر میں اگر ہے کچھ کمی رامش و رنگ و نور کی

خانہء خواب دیکھئے کیسا سجا ہوا ملا