ثمینہ راجہ


کوئی شخص تھا ۔
 
اُس نے ایک عمرجس تنگ و تاریک حجرے میں گزار دی
 
اُس کے پچھواڑے کھلنے والی کھڑکی کبھی نہیں کھولی ۔
 
حالانکہ وہ کھڑکی ایک خوب صورت باغ میں کھلتی تھی ۔

کیونکہ اس شخص، اس بے نیاز، اس درویش کے اپنے باطن میں
 
ایک باغ کِھلا تھا ۔ کیونکہ وہ شخص ' میر' تھا ۔ شاعر۔

شاعر بھی سب آدمیوں جیسا ایک آدمی ہی ہوتا ہے ۔
 
لیکن شاید اُس کا خمیر تھوڑا سا مختلف ہوتا ہے ۔
 
شاید اس کے اجزائے ترکیبی میں ایک عنصر کم ہوتا ہے
 
یا ایک عنصر زیادہ ۔
 
کیونکہ اس کے اندر کبھی کبھی ایک لہر سی اٹھتی ہے

 ایک ہوا سی چلتی ہے، ایک باغ سا کھلتا ہے ۔ 

راتوں کو جب ساری دنیا گہری نیند میں ہوتی ہے

 وہ چونک کر جاگ اٹھتا ہے ۔ 

اسے زمین اور آسمان کے درمیان پھیلی ہوئی خاموشی میں
 
ایک دھمک سنائی دینے لگتی ہے ۔
 
جیسے دل کے ساتھ ساتھ پوری کائنات دھڑک رہی ہو ۔
 
اور اس کے اندر ایک عجیب سرسراہٹ ہونے لگتی ہے ۔
 
پھیلنے لگتی ہے، آہستہ آہستہ، نس نس میں، پور پور میں ۔
 
پھر آسمان کے پوشیدہ منّور گوشوں سے

 شاعری اس کے دل پر اترتی ہے ۔ 

اور اس کے باطن میں ایک باغ کھل اٹھتا ہے ۔
 
خوابوں کا، یادوں کا، زخموں کا، شاعری کا باغ ۔

جیسے میں رہتی ہوں
 
خوابوں کے ساتھ، یادوں کے ساتھ، زخموں کے ساتھ

 شاعری کے ساتھ، باغ ِ شب میں ۔ 

ہر شاعر کی طرح، مغموم، سرشار۔



ثمینہ راجہ

---------------

1999




       1                   

                                                                                

دل میں چھپی ہوئی تھی جو، زینتِ بام ہو گئی

آنکھ اٹھی تو ساری بات بر سرِ عام ہو گئی


ایک رفیق تھا سو دل اب ترا دوست ہو گیا

جو بھی متاع ِ خواب تھی سب ترے نام ہو گئی


دیکھا نہیں ہے آفتاب، نصف نہار پر کبھی

عرصہء زندگی میں بس صبح سے شام ہو گئی


خواہشِ ِ ناتمام کو پیش ِ زمانہ جب کِیا

رم ہی کبھی کِیا نہ تھا، اِس طرح رام ہو گئی


شام کے راستے پہ تھا ایک خیال ہم رکاب

پھر تو ہَوا بھی ساتھ ساتھ محو ِ خرام ہو گئی


کیسی اڑان کی ہمیں تجھ سے امید تھی مگر

زندگی! تُو بھی طالبِ دانہ و دام ہو گئی


کلفت ِ جاں سے ایک ہی ساعتِ خوش بچائی تھی

اور وہ نذر ِ گردش ِ ساغر و جام ہو گئی


میں نہ جھپک سکی پلک مجھ پہ جھکا تھا جب فلک

حد سے بڑھی تو خامشی، خود ہی کلام ہو گئی


شہر میں ان کے نام کے چند چراغ جل اٹھے

راہروان ِ شوق کو دشت میں شام ہو گئی
            



 

2

 

شاید کہ موج ِ عشق جنوں خیز ہے ابھی

دل میں لہو کی تال بہت تیز ہے ابھی


ہم نے بھی مستعار لیا اُس سے رنگِ چشم

اپنی طرح سے وہ بھی کم آمیز ہے ابھی


پھر آبِ سرخ آنکھ سے بہتا دکھائی دے

گویا یہ دل ملال سے لبریز ہے ابھی


اک نونہال ِ خواب ہے دنیا کی زد پر آج

اِس غم کی خیر ہو کہ یہ نوخیز ہے ابھی


سب ذرّہ ہائے نیلم و الماس ، گردِ راہ

میرے لیے وہ چشم گہر ریز ہے ابھی


کیا جانیے رہے گا کہاں تک یہ دل اسیر

کیا کیجئے وہ شکل دلآویز ہے ابھی


دیکھا نہیں ہے کوئی بھی منظر نظر کے پاس

رہوار ِ عمر، طالبِ مہمیز ہے ابھی



 

3


جاگیں گے کسی روز تو اس خوابِ طرب سے 

ہم پھول ہی چنتے رہے باغیچہء شب سے


پھر ایک سفر۔ ۔ ۔ اور وہی حرفِ رفاقت

سمجھے تھے، گزر آئے ہیں ہم تیری طلب سے


خوش دل ہے اگر کوئی تو کیا اُس کا یہاں کام

یہ بارگہِ غم ہے، قدم رکھو ادب سے


اب موسم ِ جاں سے بھی یقیں اٹھنے لگا ہے

دیکھا ہے تجھے رنگ بدلتے ہوئے جب سے


یاں بھی وہی بیگا نہ روی، اپنے خدا سی

مانگی جو کبھی کوئی دعا شہر کے رب سے


چونکی ہوں تو دیکھا کہ وہ ہمراہ نہیں ہے

الجھن میں ہوں کس بات پہ، کس موڑ پہ، کب سے


یہ درخورِ ہنگامہ تو پہلے بھی کہاں تھی

ہول آئے مگر آج تو ویرانی ِ شب سے


کچھ، دوست بھی مصروف زیادہ ہوئے اور کچھ

ہم دور ہیں ، افسردگی ِ دل کے سبب سے



 

4

 
منزل ِخواب لٹی، ختم ہوئی کاوش ِدل

اب تو بے چارگی ِجسم ہے اور کاہش ِدل


برف سی جمنے لگی معبد ِدل پر آخر

سرد ہونے لگا آتش کدۂ خواہش ِدل


پاؤں کے آبلے سہلانے کی فرصت کس کو

چین لینے نہیں دیتی ہے یہاں سوزش ِدل


اک فلک زاد کے چہرے پہ نظر ٹھہری ہے

لے کے جاتی ہے کہاں دیکھیے اب گردش ِدل


کیا کریں، اس کے لیے تن کو لگا لیں کوئی روگ؟

سخت انجان ہے، کرتا ہی نہیں پرسش ِدل


چشم حیران جدا، عقل سراسیمہ الگ

اور بڑھتی چلی جاتی ہے ادھر سازش ِدل


آنکھ میں بھیگی ہوئی شام کا منظر ہی رہا

کرۂ خواب پہ ہوتی ہی رہی بارش ِدل


ہم بھی خاموش گزر جائیں گے اوروں کی طرح

لے بھی آئی تیرے کوچے میں اگر لغزش ِدل


سرد کرتا ہے لہو، تیرے زمستاں کا خیال

منجمد ہونے نہیں دیتی مگر تابش ِدل


کوئی آئے تو چراغاں ہو سبھی راستوں پر

کوئی ٹھہرے تو سجے بزم گہ ِ خواہش ِدل


لب اگر بند رہے، آنکھ اگر ساکت تھی

تو جو آیا، ہمیں محسوس ہوئی جنبش ِدل


رونق ِ بزم سے کیا ہاتھ اٹھانا تھا کہ پھر

رنگ ِدنیا سے سوا ہو گئی کچھ رامش ِدل


راکھ کا ڈھیر ہی پاؤ گے پلٹ آنے پر

گر اسی طرح جلائے گی ہمیں آتش ِدل


شومئی بخت سہی، زندگی کچھ سخت سہی

پھر بھی قائم ہے ابھی حرمت ِجاں، نازش ِدل



 

5


نہ سہی گر نہیں ملتی کوئی آسائش ِدل

ہم تو اس شخص سے کرتے نہیں فرمائش ِدل


اس کی یادوں کے گلاب، اس کی تمنا کا چراغ

ایک مدت سے یہ ہے صورت ِآرائش ِدل


ایک مضراب سے بج اٹھتا ہے سازینۂ جاں

ایک تصویر سے ہو جاتی ہے زیبائش ِدل


توُ کہاں چھایا ہے، پھیلا ہے زمانہ کتنا

اِس نظر سے کبھی کی ہی نہیں پیمائش ِدل


اسُ سے کیا شکوۂ محرومی ِیک لطف ِبدن

جس کو معلوم نہیں معنی ِآسایش ِدل


اتنے وقت،اتنےعناصرسے بنا ہے یہ جہاں

کوئی بتلائے کہ کیونکر ہوئی پیدائش ِدل


راحت ِجاں سے گئے، اس کے بھی امکاں سے گئے

وہ جو ہوتی تھی کسی وقت میں فہمائش ِدل


یہ بجا ہے، نظر انداز کریں جسم کی بات

کوئی ٹالے گا کہاں تک بھلا فرمائش ِدل؟




 

6


دنیائے وفا کا کوئی در باز کریں کیا

منزل ہی نہیں جب،سفرآغازکریں کیا 


اُڑتے ہوئے جاتے تھے ستاروں سے بھی آگے

دل ٹوٹ کے گر جائے تو پرواز کریں کیا


کیا شہرِ مراتب میں ہوں مہمان کسی کے

آئے جو کوئی، دعوتِ شیراز کریں کیا


آنکھوں سے کسی خواب کی دوری پہ ہے دنیا

اس دشتِ فراموشی میں آواز کریں کیا


جب اتنی کفایت سے ملے تیری توجہ

کیا خرچ کریں اور پس انداز کریں کیا


تجھ سا جو کوئی ہو تو اسے ڈھونڈنے نکلیں

ایسا نہ ہو کوئی تو تگ و تاز کریں کیا


ناکام تمناؤں پہ محجوب سا اک دل

سرمایہء جاں یہ ہے تو پھر ناز کریں کیا


تجھ ایسا ہو قاتل تو کوئی جاں سے نہ کیوں جائے

ہوں لاکھ مسیحا بھی تو اعجاز کریں کیا


افشائے محبت بھی قیامت سے نہیں کم

اب فاش تری چشم کا ہر راز کریں کیا 


 

15


کار ِدنیا میں کچھ اے دل نہیں بہتر تو بھی

کوچہء عشق سے چن لایا ہے کنکر تو بھی


جب تلک بام ِ فلک پر ہے، ستارہ توُ ہے

اور اگر ٹوٹ کے گِر جائے تو پتھر تو بھی


یہ قناعت بھی محبت کی عطا ہے ورنہ

شہر میں اور بہت، ایک گداگر تو بھی


مرے اندازے سے کچھ بڑھ کے تھی ظالم دنیا

پاؤں رکھ ، راہ ِ تمنا پہ سنبھل کر تو بھی


اجنبی لگتا ہے کیوں عالم ِ بیداری مجھے

کہیں رہتا ہے مرے خواب کے اندر تو بھی


میں اسُی موڑ پہ منزل کی طلب چھوڑ آئی

ہو لیا جب سے مرے ساتھ سفر پر تو بھی


میں کرن وار شبِ ماہ میں تجھ پر اتری

موج در موج اٹھا، بن کے سمندر تو بھی


مانگنا بھول گئی میں تو تمنا کا صلہ

دوجہاں سامنے پھیلے تھے، برابر تو بھی