ثمینہ راجہ


میں شعرکیوں کہتی ہوں، نہیں جانتی ۔ 

اس کے لیے میرے پاس کوئی جواز نہیں ہے ۔


 
جب میں نے ہوش سنبھالا اور پہلی مرتبہ آنکھیں کھول کر
 
خود کو دیکھا تو منکشف ہوا کہ میں پیدائشی طور پر
 
کچھ چیزوں کی اسیر ہوں ۔
 
زندگی، شاعری، محبت اور غم ۔

 زندگی، جو ایک بار ملتی ہے اور کئی بار بسر ہوتی ہے ۔ 

جتنی ستم شعار ہے اتنی ہی عزیز ۔

 
زندگی، جس طرح وہ میرے ساتھ پیش آئی ۔
 
شاعری، جب اترتی ہے تو اپنے ساتھ بہا لے جاتی ہے ۔

پاؤں اکھڑ جاتے ہیں ۔ سانس پھول جاتی ہے ۔

 شاعری، جس طرح وہ مجھ پر نازل ہوئی۔ 

محبت، جو آدمی کی کایا پلٹ دیتی ہے ۔

 
اپنے سوا کچھ یاد نہیں رہنے دیتی ۔
 
جینے دیتی ہے نہ مرنے دیتی ہے ۔
 
محبت، جس طرح وہ میرے وجود پر چھائی رہی ۔
 
اور غم، جس کے حضور میں سراپا سپاس ہوں ۔
 
غم، جو گہرے پانیوں میں لے جاتا ہے ۔
 
اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے ۔

 باقی سب کچھ محو کر دیتا ہے ۔ 

غم، جس طرح وہ ہمیشہ میرے دل کے گرد لپٹا رہا ۔ 

ہرشخص عمر کے کسی نہ کسی حصے میں


 خواب ضرور دیکھتا ہے اور سچائی سے پیار ضرور کرتا ہے ۔ 

مگر میں نے پوری عمر، سچائی کے عشق میں


 
اور خواب کی کیفیت میں بسر کی ہے ۔
 
اگر کبھی کوئی سچ مجھ پر ہویدا ہوتا ہے

تو وہ بھی ایک خواب ہی لگتا ہے



ثمینہ راجہ

----------------

1995




1



یارب! لبِ خموش کو ایسا جمال دے

جو گفتگو کے سارے ہی لہجے اجال دے


سوزِ درون ِ قلب کو اتنا کمال دے

جو مجھ کو ایک شمع کے قالب میں ڈھال دے


پردے ہٹا، دکھا دے تجلّی سے شش جہات

پھر مطمئن وجود کو روح ِ غزال دے


وہ خواب مرحمت ہو کہ آنکھیں چمک اٹھیں

وہ سر خوشی عطا ہو کہ دنیا مثال دے


وہ حرف لکھ سکوں کہ بنے حرف ِ پُر اثر

اک کام کر سکوں تو مجھے گر مجال دے


میں اپنی شاعری کے لیے آئنہ بنوں

راحت نہیں، تو مجھ کو بقائے ملال دے


تیرے ہی آستاں پہ جھکی ہو جبین ِ دل

اپنے ہی در کے واسطے خوئے سوال دے




 2


حیران




ہونٹوں پہ گُل کِھلا کر

زلفیں مری اُڑا کر

آنچل سے بات کر کے

آگے گزر گئی ہے

تیری طرح سے چھو کر

بادِ صبا تو مجھ کو

حیران کر گئی ہے





3



اچانک



سرد تھے ہونٹ 

بہت زرد تھی یہ شاخِ بدن

سخت پتھرائی ہوئی تھیں آنکھیں

دشت کی طرح تھی ساری دنیا

آسماں،درد کا لمبا صحرا



جانے کیا بات چلی باتوں سے

جانے کس طرح ترا ذکر چھڑا

ایسا لگتا ہے تنِ مردہ میں

روح پھونکی ہے کسی نے تازہ



 

5


اک رات اجالو میرے لیے



اک رات اجالو میرے لیے

میں سو جاؤں ۔۔۔ تم جاگو


اک شبنم ہاتھ رکھو سینے پر

لمس جگے تو لب مہکاؤ

سانس میں پھول کھلاؤ


ہوا چلے تو

پلکوں پر تارے برساؤ

نیند کے پر پھیلے جائیں

پھر خواب سمندر جھاگو


اک رات اجالو میرے لیے

میں سو جاؤں

تم جاگو



6


گناہ گار



بات کرنے کی کب ملی مہلت

حال اک دوسرے کا کب پوچھا

چاندنی رات کے دریچے میں

اس نے یہ ہاتھ، ہاتھ میں نہ لیا

بارشوں میں کبھی نہ بھیگے ساتھ

دھوپ میں ڈھونڈ پائے کب سایا

اس نے باندھا نہیں کوئی پیماں

میں نے مانگا نہیں کوئی وعدہ

کچھ عجب طرز کی محبت تھی

کچھ عجب طرح کا یہ عشق ہوا


یونہی اک پھول کے چٹکنے پر

طالب ِموسم ِبہار ہیں ہم

زندگی کے طویل رستے پر 

اک نظر کے گناہ گار ہیں ہم





7


تمہیں کیا خبر





تمہیں کیا خبر

تم کسی اور دنیا کے باسی ہو

تم نے پہاڑوں پہ جھکتا ہوا سرمئی ابر دیکھا ہے

ساحل سے اٹھکیلیاں کرتی موجوں سے دامن بھرا ہے

ہزاروں ہی رنگوں کے پھولوں کو چوما ہے

خوشبو کے جھونکوں سے دل کی ہر اک بات کی ہے

پرندوں سے اور تتلیوں سے ملاقات کی ہے

دھنک کو چھوا ہے



تمہیں کیا خبر

اس جہاں میں کئی ایسے بھی لوگ ہیں

بیچ جنگل میں رہتے ہیں جو

اور جنگل کو بھی دیکھ سکتے نہیں




8


کھلی ہوئی کھڑکیوں سے اک شام جھانکتی ہے





عجیب عالم ہے

زندگی

میری بھیگتی پتلیوں میں جیسے دھڑک رہی ہے

تمہاری یادوں کے سائے سائے

دھندلکا، پیڑوں کی چوٹیوں پر اتر رہا ہے

شفق ۔۔ خموشی سے پھیل کر دور تک بکھرتے

حسین منظر کے کینوس پر

ہزار رنگوں پہ

اک گلابی چھڑک رہی ہے


میں تم سے کتنی ہی دُور ہوں

پر تمہاری قربت کی 

تیز حدت سے جل رہی ہوں

میں سارے منظر سے بھی الگ ہوں

مگر شفق سے ۔۔ وجود گلنار ہو رہا ہے


کھلی ہوئی کھڑکیوں سے 

اک شام جھانکتی ہے





9


جنگل





جاگتی آنکھوں سے میں نے خواب یہ دیکھا کہ جنگل ہے

گھنے پیڑوں، گھنیری جھاڑیوں، وحشت بھری پگڈنڈیوں

ویران راہوں اور گہری کھائیوں کا ایک جنگل ہے


گجر دم کا سماں ہے ۔۔ چند گز کے فاصلے سے

بھیڑیوں کے غول کے رونے کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں

رفتہ رفتہ ان صداؤں پر

کسی کوئل کی مدھ ماتی صداؤں کا فسوں غالب ہوا جاتا ہے

کوئل صبح کے دلکش سکوں پرور ترانے گا رہی ہے

جب کسی جانب سے شیروں کی دہاڑیں

پورے جنگل کی فضا میں گونج اٹھتی ہیں ۔۔ 

تو جنگل کانپ جاتا ہے

میں گھبرا کر ۔۔ سراسیمہ سی ہو کرایک جانب ہٹنے لگتی ہون

سنہری چوٹیوں والے گھنیرے پیڑ کے

 سینے سے لگ جاتی ہوں

اور تھوڑا سکوں محسوس کرتی ہوں

گماں ہوتا ہے ۔۔ دنیا کے جھمیلوں سے الگ ہو کر

میں ماں کی مہرباں آغوش میں سمٹی ہوئی ہوں

پیڑ کی اک شاخ مجھ کو تھپکیاں دیتی ہے

تب ''زن'' سے کوئی شے میرے قدموں سے ذرا ہٹ کر گری ہے

ملگجی سی روشنی میں، میں نے دیکھا ہے

وہ اک پھنیر، سیہ، میری کلائی سے ذرا موٹا

بڑا سا ۔۔ سانپ ہے

میں چیخ اٹھتی ہوں ۔۔ تڑپ کر بے تحاشا دوڑنے لگتی ہوں

اس دم پیڑ کی شاخوں سے لٹکے 

شہد کے چھتے میں اک ہلچل سی ہو تی ہے

سپاہِ نیش زن میرے تعاقب کے لیے ۔۔ پر تولتی ہے

خوف اور دہشت کے ان لمحوں میں ۔۔ آنکھیں موند کر

میں ایک پگڈنڈی پہ ہو لیتی ہوں

لیکن کون بتلائے ۔۔ یہ پگڈنڈی

 کسی بستی کی جانب جا رہی ہے

یا کوئی خونخوارشیر اس کو

کچھاروں کی طرف جانے کو ہی رستہ بنائے ہے

اسی پل ۔۔ اک جگہ مجھ کو مہک محسوس ہوتی ہے

میں آنکھیں کھولتی ہوں

اف، یہ خطّہ غالباً جنگل کے ہرحصّے سے بڑھ کر

 خوب صورت ہے

یہاں ہر سمت ہی مخمل کی اک گہری ہری چادر بچھی ہے

اوس میں بھیگی ہوئی ۔۔ اور چار جانب

جنگلی پھولوں کی خود رو جھاڑیاں ہیں اور بیلیں ہیں

میں سب کچھ بھول کر اک پھول کی جانب لپکتی ہوں

معاً اک سرسراتی بیل کی لچکیلی ٹہنی ۔۔
 
میرے بازو پر تڑپتی ہے

لپٹتی ہی چلی جاتی ہے ۔۔ یوں محسوس ہوتا ہے

کہ اس کا گوشت کھانے اور خوں پی کر گزارا کرنے والی

جھاڑیوں سے کچھ تعلق ہے ۔۔ میں چیخیں مارتی ہوں

میں مدد کے واسطے آواز دیتی ہوں ۔۔ میں روتی ہوں

میں اس لمحے تو سچ مچ ہچکیاں لے لے کے روتی ہوں

مگر کوئی نہیں سنتا

درندوں کی کچھ آوازیں مرے کانوں میں پڑتی ہی ۔۔۔۔۔ 


ادھر زہریلی آدم خور بیلوں کا شکنجہ ۔۔ تنگ ہوتا جا رہا ہے

وہ مری شہ رگ کو جکڑے ۔۔ میرا خوں پینے لگی ہیں

میری آنکھیں درد کی شدّت سے پھٹنے کو ہیں

میرے منہ سے کچھ بے ربط آوازیں نکلتی ہیں

مگر اب ذہن سُن ہونے لگا ہے ۔۔۔۔۔۔۔

آخری لمحوں میں ۔۔ میں نے آنکھ بھر کر

جسم و جاں کی ساری قوت

اپنی آنکھوں میں اکٹھی کر کے ۔۔ دیکھا ہے

ذرا کچھ فاصلے پر ۔۔اک پہاڑی کے ادھر ۔۔ 

سورج ابھرتا آ رہا ہے

اور اس کی خوشنما کرنیں ۔۔ اندھیروں کو

 ہرا دینے پہ نازاں ہیں

سو اب میری نگاہوں میں حقیقت کا اجالا گھلتا جاتا ہے

میں اس دم ۔۔ تم سے محوِ گفتگو ہوں

اور تمہاری ذات کے منظر ۔۔ مری آنکھوں پہ کھلتے ہیں






4


اجنبی آؤ





اجنبی آؤ

 دیکھو، امنگوں کی نوخیز کلیاں

جو مرجھا رہی ہیں

تمہارے لیے وقت ۔۔۔ چنچل پرندہ

مرے سانس پتھر تلے دب چکے ہیں

مری عمر کچھ کٹ چکی ہے

جو باقی ہے ۔۔۔ اک کرب میں کٹ رہی ہے


اگر اجنبی تم نہ آؤ

تو پیغام بھیجو

اگر کوئی چنچل پرندہ ملے ۔۔۔ وقت کا

 اس کی گردن میں باندھو کوئی سبز کاغذ

کوئی سبز کاغذ کہ جس پر لکھو ۔۔۔ اپنے ہاتھوں

انوکھی، پر اسرار، سب رنگ تحریر

پھر وہ پرندہ مری سمت بھیجو

تو پھر اجنبی، وہ پرندہ

(اگر ہو سکے تو

مرے سانس پتھر تلے سے نکالے

مرا کرب چکھے

 وہ کاغذ

تمہاری پراسرار، سب رنگ تحریر والا

محبت کا تعویذ کر کے

مری سُونی گردن میں ڈالے



 

10


سب سلامت رہیں




سب سلامت ہیں 

۔۔۔ پھر بھی مجھے ایسا لگتا ہے

تنہائی، میرے مقدر میں لکھی گئی ہے

کہ تنہائی ہی فرش، تنہائی ہی میری چھت

میرے اطراف میں صرف تنہائی

تنہائی چادر ہے تن کی

تو من میں بھی تنہائی ہی گونجتی ہے



مرا آسماں ڈھے گیا ہے

زمیں ذرہ ذرہ ۔۔۔ خلا میں بکھر کر۔۔۔ فنا ہو چکی ہے

مرا باپ، ماں، بھائی، بہنیں، عزیزواقارب، سبھی دوست، محبوب

سب مر چکے ہیں


میں تنہائی کے گھُپ خلا میں ۔۔۔ بھٹکتی ہوں

سانسوں کا زہراب پیتی ہوں

زندہ ہوں

لیکن اکیلی ہوں میں

سب سلامت رہیں، سب سلامت رہیں)

( اے خدا!  سب سلامت رہیں





11


تم نے کب جانا




یہ سچ ہے

میں نے آنکھوں کا کوئی پیغام کب سمجھا

تمہاری لرزش ِلب کو سمجھنا کیا

تمہارے بولتے لفظوں کو سننے سے بھی

انکاری رہی

دل کی کسی دھڑکن کو

پوروں سے کبھی چھو کر نہ دیکھا

مسکراہٹ

قوس کی صورت کبھی مجھ پر جو گِرتی تھی

تو میں آنکھیں چُراتی تھی

تمہاری تشنۂ تکمیل بانہوں سے

سدا پہلو تہی برتی

تمہارے پیاس پیتے، سوکھتے آغوش کو

سر سبز کرنا ۔۔۔ میں نے کب چاہا


مرے شاکی! یہ سچ ہے

پر کبھی تم نے بھی دیکھا

سامنا ہونے کی پیاری ساعتوں میں

میرے چہرے کا گلابی رنگ

میری انگلیوں کی نرم لرزش

میری شریانوں میں بہتے خون کی معصوم شوخی سے

بدن کی کپکپی؟

اور پھر جدائی میں

مری ویران پلکوں پر لکھا گِریہ

کبھی تم نے پڑھا؟

چھوڑو، یہ بتلاؤ

مری خاموشیوں کا استعارہ تم نے جانا؟

(تم نے کب جانا)




12


لمس زندہ رہے







جوتشی نے کہا


تیرے مقسوم میں اک محبت ہے''

ایسی محبت

ازل سے ابد تک کی سب چاہتوں کا جو حاصل ہے

عشق کی روح بھی جس میں جاری و ساری ہے

(اک وحشیانہ تڑپ اور کسک

اور الفت کی دھیمی، مہکتی ہوئی آنچ بھی 


تیری قسمت میں ایسی محبت ہے

جو لمس سے ماورا

وصل کی خواہشوں سے جدا ہے

داہنے ہاتھ کی ایک ریکھا بتاتی ہے

تجھ کو محبوب کے وصل سے کچھ تعلق نہیں

اس کی چاہت

فقط اس کی چاہت ترا منتہائے نظر ہو تو بہتر رہے گ


مرے دل سے اک آہ نکلی

مگر اس محبت سے کیا فائدہ

میں بھی جلتی رہوں، وہ بھی جلتا رہے؟

اب تو محبوب کو دیوتا مان کر

یا خدا جان کرپوجنے کی کہانی

فسانہ ہوئی

اب حقیقت جو ہے وہ فقط وصل ہے

میری اور اس کی ہستی کا شاہد اگر کوئی ہے

تو فقط لمس ہے


میرے مقسوم میں پیار ہے تو مرے ہاتھ میں

اے خدا

 وصل قائم رہے

لمس زندہ رہے



 

13


ہویدا



ہزاروں بارشیں گزریں، کئی طوفاں گرے اس پر، نہ ٹوٹا یہ

 ہزاروں بارشیں لفظوں کی مجھ پر بھی گریں

 گزرے کئی طوفاں، نہ ٹوٹی میں ۔۔۔ 

کسی نے جب کوئی پتھر تراشا، سر جھکایا اس کے آگے

 اور میں نے سر جھکایا اپنے آگے جب

 کھلا مجھ پرمیں پتھر ہوں

بھڑک کر خود، کسی کو سر سے پاؤںتک جلا دینا

 جو بجھ جانا تو اس کو بھی بجھا دینا ۔۔۔ 

میں جب بھڑکی، اسے بھڑکا دیا، خود جل بجھی، وہ بجھ گیا

پھر راکھ بن کر اڑ گیا لیکن مری حدت، مری گرمی

 بنی اس کے بدن کی آنچ جب، اس دم

 کھلا مجھ پرمیں شعلہ ہوں

صبا گزرے تو ویراں راستوں پر نقش ِ پا چھوڑے 

 صبا کلیوں کو جوبن دے، صبا پھولوں کے لب چومے ۔۔۔

 میں اس کے دل کے رستوں سے جو گزروں،

 نقش ِ پا چھوڑوں

 بدن کو تازگی دوں اور لبوں کو پھول کر آؤں

 لباس ِ سادہ کو چھو لوں تو وہ بھی سرسرائے ریشمیں ہو کر

 کھلا مجھ پر صبا میں ہوں
 
گلوں کے زرد بیجوں سے اگے خوشبو

 کہ پردوں میں کسی پردے سے پھوٹے، کھل نہ پائے ۔۔۔

 کھل نہ پائے جب یہی مجھ پر کہ کس پردے میں،

 کس نقطے میں

 خوشبو ہے مری فطرت کے، ایسے میں کھلا مجھ پر

 کہ گل میں ہوں

وہ آوارہ کہیں جائے نہ جائے، اک جگہ پھوٹے

 تو پھیلے ہر جگہ

 ہر اک مشام ِجاں معطر کر کے ہر آغوش میں مچلے 

مگر پھر بھی رہے سادہ ۔۔۔

 وہی آوارہ دلداری، وہی معصومیت مجھ میں

 کھلا مجھ پر میں خوشبو ہوں

کھلا مجھ پر

میں پتھر ہوں

میں شعلہ ہوں

صبا میں ہوں

میں گل ہوں

اور میں خوشبو ہوں

خدا میں ہوں

میں بندہ بھی

خود اپنے آپ سے اوجھل بھی ہوں

خود پر ہویدا بھی






14



آخر ِشب




آخر ِشب ۔۔۔ فلک سے اترتی ہوئی شبنمیں ساعتوں میں

ستاروں کی جھلمل تلے ، جب زمیں سو رہی تھی

زمیں ۔۔۔ سانس لیتی ہوئی ایک عورت کے مانند

کھولے ہوئے نقرئی چھاتیاں، سو رہی تھی

تو سانسوں کے اس زیرو بم میں

سمندر، پہاڑوں سے ملتے ہوئے ۔۔۔ جاگتا تھا

فضا ۔۔۔ گھور اندھیرے میں ڈوبی ہوئی

پر اندھیرے سے جیسے کوئی آنکھ مانوس ہو

اور سب دیکھتی ہو

ستاروں کی جھلمل فلک سے اترتی ہوئی

اور ترائی میں ۔۔۔ بھیگا ہوا حسن



اس نے کہا

حسن اندھیروں میں کھلتا ہے

اور روشنی اک لبادہ ہے

آنکھیں، بہت دور تک دیکھنے کی ہوں خوگر

تو اکثر بہت پاس کی شے نہیں دیکھ پاتیں

محبت سِکھاتی ہے جب

دیکھنا ، سوچنا، یاد رکھنا

تو نفرت کو پوشیدہ رکھو

کہ نفرت وہ پتھر ہے ، جس کو 

پہاڑون کا سینہ نہیں جھیل پاتا

وہ شعلہ ہے، جس کو سمندر بجھانا بھی چاہے

تو قاصر رہے


اور محبت کرو

سیدھی سادی محبت کہ جو زندگی کا

بہت دور تک ۔۔۔ آخری دم تلک ساتھ دے

صورتوں سے، اداؤں سے، ناموں سے، روحوں سے

سب سے محبت کرو

ہاتھ میں ہاتھ منزل کا پہلا نشاں ہے

تو منزل مسافت کی حد پر گڑی ہے



مگر زندگی

تیز پانی کے ریلے کی زد پر پڑا ۔۔۔ گول پتھر

بلندی سے گرتی ہوئی آبشاریں نہیں دیکھتیں

ان کی زد پر ہیں پتھر کہ خاشاک و خس

آدمی

پتلیوں کی طرح ۔۔۔ آسماں کے تلے

ایک سفاک ڈوری میں جکڑا ہوا

ناچتے ناچتے ناچتے

ختم ہو جائے گا




 

15



مجھے نیا طلسم دے






خدائے دل 

مجھے بتا ، میں کیا کروں

کہ راز مجھ پہ ہوں عیاں

کہ رنگ مجھ پہ کھل اٹھیں 

ہو وقت مجھ پہ مہرباں

مرے یہ پاؤں راہ کی تپش سے اب جھلس گئے

مری نظر بھی تھک گئی

مجھے ملا نہیں نہال ِ سبز کا کوئی نشاں

نہ شہر میں کوئی صدائے آشنا

نہ صبح ِ دلبری نہ شام ِ دوستاں

مرا نصیب سو چکا

مرا طلسم کھو چکا
 
خدائے دل