ثمینہ راجہ


 
محبت کرنے والے، بہت خوش بخت لوگ ہوتے ہیں ۔
 
تمام سفر نصیب لوگوں میں سب سے خوش بخت ۔


وابستگی کی ان دیکھی زنجیروں میں جکڑے ہونے کے سبب

ممکن ہے یہ عام لوگوں سے زیادہ اذیت میں بسر کرتے ہوں ۔ 


لیکن یہ عام لوگوں کی نسبت زیادہ اعلٰی درجے کے کیف سے

بھی نوازے جاتے ہیں ۔ کیونکہ انہیں اپنی پرانی وابستگیوں پر 

پڑے ہوئے، وقت کے دبیز پردوں کو ہٹانے کے لیے

، تمنا کی شدت اور وارفتگی عطا کی جاتی ہے ۔ وہ وابستگیاں جو 

کہیں پچھلے جنموں میں قائم ہوئیں ۔ فراق و وصال سے بے نیاز

یہ اپنی ہی ذات کے ترفع میں مصروف لوگ ہوتے ہیں ۔ محبت 

اور اذیت کی مشترکہ یادوں کے طلسمی تاروں سے جڑے ہوئے ۔

ان کی روحیں، کسی الوہی ساز کی وجد آفریں لے پر رقصاں 

ہوتی ہیں اور ان کے دل سرشاری کی انتہا پر پہنچ کر کائنات کی 

طرح بے کنار ہو جاتے ہیں ۔ اپنے فن میں ڈوبے ہوئے شاعر 

ادیب اور فنکار ان عشاق سے کہیں زیادہ خوش بخت ہوتے ہیں ۔

 
اپنی مخصوص نظریاتی وابستگیوں کے سبب، ممکن ہے، یہ بھی

عام لوگوں سے زیادہ اذیت میں بسر کرتے ہوں ۔ لیکن انہیں بھی

 
عام لوگوں کی نسبت، زیادہ اعلٰی درجے کے کیف سے نوازا جاتا 

ہے ۔ وقت بڑی سہولت سے، ان کی آنکھوں سے اپنے پردے ہٹا

دیتا ہے ۔ اور زمانے ان کےقدموں میں راستوں کی طرح بچھ 

جاتے ہیں ۔ ستائش اور صلے سے بے نیاز، یہ اپنی ہی ذات کے

 
ترفع میں محو لوگ ہوتے ہیں ۔ ان کے دلوں میں پوری کائنات کو

اپنے اندر سمیٹ لینے کی وسعت ہوتی ہے ۔ اور ان کی روحیں 

جو الوہی نغمے الاپتے ہیں، ابدیت ان پر رشک کرتی ہے 


ثمینہ راجہ

-------------

2004



1


ایک نگاہ اس طرف



آئنہ رکھ دیا گیا عکس جمال کے لیے

پورا جہاں بنا دیا، ایک مثال کے لیے

خاک کی نیند توڑ کر آب کہیں بنا دیا

ارض و سما کے درمیاں خواب کہیں بنا دیا


خواب نمود میں کبھی آتش و باد مل گئے

شاخ پر آگ جل اٹھی، آگ میں پھول کھل گئے

ساز حیات تھا خموش، سوز و سرود تھا نہیں

اس کا ظہور ہو گیا جس کا وجود تھا نہیں


خاک میں جتنا نور ہے ایک نگاہ سے ملا

سنگ بدن کو ارتعاش دل کی کراہ سے ملا

دشت وجود میں بہار اس دل لالہ رنگ سے

رنگ حیات و کائنات اس کی بس اک امنگ سے


قرنوں کے فاصلوں میں یہ دل ہی مرے قریب تھا

قصہء ہست و بود میں کوئی مرا حبیب تھا

تیرہ و تار راہ میں ایک چراغ تھا مرا

کوچہ ء بے تپاک میں کوئی سراغ تھا مرا


ہو کے دیار خواب سے کیسی عجب ہوا گئی

شیشہء تابدار پر گرد ہی گرد جم گئی

بھول چکا ہے اپنی ذات بھول گیا ہے اس کا نام

سوز و گداز کے بغیر، لب پہ درود اور سلام


مدت عمر ہو گئی اس کو عجیب حال میں

فرق ہی کچھ رہا نہیں شوق میں اور ملال میں

دل کی جگہ رکھا ہے اب، سنگ سیاہ اس طرف

ہجر و وصال کے خدا! ایک نگاہ اس طرف


 

2


بس ایک خواب ِ بہار



اتر کر آئی ہے آنکھوں تلک بہار کی شام

نظر بچا کے شب و روز کے تسلسل سے

وہ موسموں کا گزرگاہ ِ زندگی پہ سفر

ہَوائے یاد کی ویران بستیوں کی طرف

کہ جن کی راہ میں دیوار تھی عجب کوئی

وہ سنگ و خشت کی دیوار

یا ارادے کی

وہ راستے، جو فقط راستوں کے سائے تھے

وہ واہموں کی حدیں ۔۔۔ مضطرب ارادوں پر

کہیں سرکتی، کسی سمت سرسراتی ہوئی

وہ شاخ شاخ پہ مثل ِ خزاں برستی ہوئی

وہ پھول پھول کے دل کو

بہت ڈراتی ہوئی

خزاں سے عہد نہ تھا اور موسم ِ گل سے

کبھی ملن نہ ہوا، وعدہء وفا نہ ہوا

وہ موسموں کی حکایت کتاب ِ دل میں رہی

فسانہ اہلِ چمن کا کہیں لکھا نہ گیا

کبھی پڑھا نہ گیا اور کبھی سنا نہ گیا

زمیں جو پاؤںکے نیچے، زمیں کا دھوکا تھی

کبھی ہری نہ ہوئی ۔۔۔ دُوب لہلہائی نہیں

مسافتوں کے سروں پر کھڑے یہ شاہ بلوط

جو اب سیاہ ہوئے انتظار ِ ہستی میں

ہَوا کے دوش پر آتا نہیں کوئی پیغام

نگاہ ِ ہجر میں کھلتا ہے صرف ایک گلاب

بس ایک خواب

فقط ایک خواب ِعشق مآب 

مہ و ستارہ ۔۔۔ گل و برگ ۔۔۔ طائر و اشجار

صدائے خواب پہ ' لبیک' کہہ رہے ہیں تمام

اتر کر آئی ہے آنکھوں تلک

بہار کی شام



3


عشق



اک صدائے خواب

نا دیدہ جہانوں سے گزر کرآ رہی ہے

دھوپ جیسی چاندنی 

کالی زمینوں کے بدن چمکا رہی ہے

فصل ِگل آنے سے پہلے کوئی خوشبو

سب زمانوں کے مقدس پیرہن چمکا رہی ہے

آگ جیسی کوئی حیرت ناک شے

دل کے نہاں خانوں میں جلتی جا رہی ہے




4



خوش ہوں کہ تیرے غم کا سہارا مجھے ملا

ٹوٹا جو آسمان، ستارہ مجھے ملا


کچھ لوگ ساری عمر ہی محروم ِ غم رہے

اک خواب ِ عشق تھا جو دوبارہ مجھے ملا


پھر شام ِ زندگی کے اُسی موڑ پر ہوں میں

جس شام، التفات تمہارا مجھے ملا


گردش میں لا کے پاؤں کے نیچے زمین کو

اک دور کے سفر کا اشارہ مجھے ملا


اِس ہجرمیں شریک تھا تُو بھی مرا تو پھر

کیسے ہوا کہ سارے کا سارا مجھے ملا


شایاں نہیں ہیں دل کے یہ غم ہائے روزگار

کیوں جو نہیں ہے مجھ کو گوارا، مجھے ملا


ہر اٹھتی موج کرنے لگی تھی زمیں سے دور

یوں، آسماں کا ایک کنارہ مجھے ملا


ترجیح تیری اور سہی اب مگر وہ خواب

سرمایہء حیات ہمارا، مجھے ملا


جلنے لگی تھیں مشعلیں خیموں کے آس پاس

پھر کیسے کوچ کا وہ اشارہ مجھے ملا


پھر رات کے دیار تلک ساتھ ہم چلے

رستے میں جب وہ شام کا تارا مجھے ملا



5


میری بھی اک زندگی ہے



مری اک زندگی ہے ۔۔۔ جو تمہاری زندگی سے مختلف ہے

کوئی انہونی تمنا ۔۔۔ جو تمہاری آرزو سے مختلف ہے

ایک ویرانی کی خوشبو

جو تمہارے شہر کے ہر رنگ و بو سے مختلف ہے

زندگی میری وہ قریہ

سائے کے مانند جس میں دھوپ آتی ہے

خموشی کی طرخ آواز

پرچھائیں کی صورت لوگ

دھوکے کی طرح دنیا

کوئی گھر ۔۔۔ جس کی اک دہلیز ہے

دہلیز سے آگے ہے در

در میں ہے اک دیوار

دیواروں سے آگے اور دیواریں

کوئی کمرہ ۔۔۔ اندھیرے سے چمکتا ۔۔۔ خامشی سے گونجتا

گہرے اندھیرے کے نہاں خانے مین جیسے

خواب کے روزن سے آتی روشنی میں
،
 دور تک پھیلا ہوا رنگیز 

جس میں خاک کا ہر ایک ذرہ جگمگاتا ہے

مری نظروں کی زد میں ۔۔۔ دسترس سے دور

راتوں کے سرہانے جاگتے دن میں

یہ دردائی ہوئی آنکھیں ۔۔ گزرتے وقت کو 

اک بے توجہ آشنائی سے مسلسل دیکھتی ہیں

سامنے گھنٹے، منٹ، سیکنڈ ۔ ۔ ۔ ۔ 

یکساں دائرے میں چلتے رہتے ہیں

ازل کی پہلی ساعت میں

مرے حصے کا سارا وقت ٹھرا ہے

ابد کی سمت بہتی ۔۔۔ اک کہانی ہے مری

لیکن تمہاری داستاں سے مختلف ہے

جو اداسی چھا رہی ہے ایک لمحے کو ۔۔۔ تمہارے نرم دل پر

میرے دل کی مستقل آزردگی سے مختلف ہے

میری بھی اک زندگی ہے

جو تمہاری زندگی سے مختلف ہے 

______________

Spectrum - رنگیز 



6


خوشبو کے ساتھ اس کی رفاقت عجیب تھی

لمس ہوائے شام کی راحت عجیب تھی


چشم شب فراق میں ٹھہری ہے آج تک

وہ ماہتاب عشق کی ساعت عجیب تھی


آساں نہیں تھا تجھ سے جدائی کا فیصلہ

پر مستقل وصال کی وحشت عجیب تھی


لپٹا ہوا تھا ذہن سے اک کاسنی خیال

اترا تو جان و جسم کی رنگت عجیب تھی


اک شہر آرزو سے کسی دشت غم تلک

دل جا چکا تھا اور یہ ہجرت عجیب تھی


ملنے کی آرزو، نہ بچھڑنے کا کچھ ملال

ہم کو اس آدمی سے محبت عجیب تھی


آنکھیں ستارہ ساز تھیں باتیں کرشمہ ساز

اس یار سادہ رو کی طبیعت عجیب تھی


گزرا تھا ایک بار،ہوائے خزاں کے بعد

اور موجہء وصال کی حدّت عجیب تھی


ششدر تھیں سب ذہانتیں اور گنگ سب جواب

اس بے سوال آنکھ کی وحشت عجیب تھی


اس بار دل کو خوب لگا موت کا خیال

اس بار درد ہجر کی شدّت عجیب تھی



7


شبِ ستارہ ساز کو خبر نہیں



صدائے زندگی نہیں ۔۔۔۔ کسی اداس ساز کی صدا ہے یہ

نشیب سے بلند ہو رہی ہے

یا بلندیوں سے اِن سماعتوں تلک اُتر رہی ہے

اُٹھ رہی ہے اِس زمیں کی سانولی حدوں کے آس پاس سے

کہ نیلگوں فلک کی سُرمگیں لکیر کے اُدھر سے

کس طرف سے گنگنا رہی ہے یہ

شبِ ستارہ ساز کو خبر نہیں

ہَوائے بے نیاز کو خبر نہیں


یہ دشتِ ہَول ہے کہ دل کی بے بسی کا سلسلہ

یہ کہکشاں کی دھند ہے کہ زندگی کا راستہ

یہ خواب ہے کہ اک جہانِ خاک و آب و باد ہے

نئی زمیں کا آسرا ہے

یا ستارہء کہن کی کوئی یاد ہے

کوئی پہن کر آ رہا ہے چاندنی کا پیرہن

کہ ہے یہ صرف خاکِ مضطرب کا ریشمیں بدن



فصیل ِ شہر ِ جاں پہ کس کا عکس ہے

یہ آسماں کے بے نشان راستوں پہ کون محو ِ رقص ہے

یہ کوئی اجنبی ہے ۔۔۔ راہ رَو ہے

کوئی رند ہے ۔۔۔۔ نشے میں چُور

آشیاں سے دور ۔۔۔ کوئی بے نوا پرند ہے

کسی نگاہِ خوش میں تیرتا ہوا کوئی خیال

یا کسی شکستہ دل میں ۔۔۔ لمحہ لمحہ ڈوبتا ملال ہے


سیاہ رات کی جواں اداسیاں ۔۔۔ بکھر رہی ہیں ہر طرف

کہ گیت گا رہی ھیں وصل و ہجر کے

اداس دیو داسیاں


ستارے اک دبیز خواب میں چُھپے ہوئے ہیں

سو رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔ جاگتے ہیں

آسمانِ شب کو کچھ خبر نہیں



کوئی وجود کی اتھاہ آرزو مین گُم ہوا

کوئی خلا کے بحر میں

کسی نئے خیال کی ۔۔۔ کسی نئے کنار کی

نئی زمیں ۔۔۔ نئی فضا کی ۔۔۔ خوابنا 

کی آرزو میں گم ہوا

کوئی وفا شناس، بزم ِ بے تپاک سے اُٹھا

قدم اُٹھے کہ جسم خاک سے اٹھا

کہاں سے آ رہی ہے یہ عجب صدا



صدائے زندگی ہے یہ

کہ ساز ِ سرمدی کی اک صدائے خوابناک ہے

صدائے نور ۔۔۔۔ یا صدائے خاک ہے

ہوائے بے نیاز کو خبر نہیں

شبِ ستارہ ساز کو خبر نہیں



8


غروبِ شام سے پہلے پلٹ کر اپنے گھر آئے

ہم اُس شہر ِ مراسم سے ذرا جلدی گزر آئے


ابھی درپیش کالی نیند کی لمبی مسافت ہے

نجانے کون سی منزل پہ خواب ِخوش نظر آئے


ہوائیں مختلف تھیں، آسماں کا رنگ بدلا تھا

گئے سب حوصلے جب تک ہمارے بال و پر آئے


افق کے ساتھ لگ کر جانے کب سے منتظر ہے یہ

چلو دروازہء شب کھول دیں تاکہ سَحر آئے


جنہیں بچپن میں پیچھے چھوڑ کر آئے تھے،رستے میں

وہی گلیاں، وہی کوچے، وہی دیوار و در آئے


تری چارہ گری کے بعد تن تو رُو بصحت تھا

مگر دل پر نشان ِ ہجر جانے کیوں ابھر آئے


نہیں بھولے سے آتی اک کرن اس طالع ِ غم میں

اگرچہ حوت میں ہم کو کبھی زہرہ نظر آئے


کبھی پتھر کی صورت اور کبھی دیوار کی صورت

ہم ایسے لوگ، اپنے راستے میں عمر بھر آئے


زمیں سے ہو کے یہ آنکھیں فلک کی سمت اٹھتی ہیں

کسی جانب سے تو یارب! کوئی اچھی خبر آئے



9


سحر ِسامری



آسماں گنگ 

زمیں ششدر ہے

زندگی اپنے گمانوں کی اسیر

مجھ سے خود اپنا پتہ پوچھتی ہے

اس سیہ خانہء دوراں میں کہیں

نور کی کوئی کرن ہے کہ نہیں

ہے کسی چشم ِ مروت میں دھڑکتا امکاں

یا کسی دل میں کوئی جائے اماں


پاؤں کے نیچے سرکتی ہوئی ریت

ایک دلدل میں بدلتی ہوئی ریت

کوئی محرم، کوئی ہمدم، کوئی دوست

کون موجود ہے ۔۔۔ کیا نا موجود

اجنبی چہروں کا سیلاب ہے اور آوازیں

جیسے اک خواب ِ پریشاں میں کوئی خواب ہے 

اور آوازیں

دور سے نام مرا لیتی ہیں اور ہنستی ہیں

کوئی تضحیک ہے ۔۔۔ یا خوف ہے ۔۔۔ یا وہم ہے یہ


اپنی آنکھوں میں سیہ سایا لئے

اور ہونٹوں پہ طلسمی منتر

رسیاں پھینک رہا ہے کوئی

سانپ بنتے ہیں مرے چاروں طرف

تیز ہوتی ہے ادھر ورد کی لےَ

کچھ لہو رنگ شرارے سے اچھلتے ہیں

مرے چاروں طرف


میرے کِیسے میں نہیں ردِ طلسم

میرے ہونٹوں پہ کوئی اسم نہیں

زندگی صرف گمانوں کی اسیر

آسماں گنگ ہے 

ششدر ہے زمیں



10



عشق دریا ہے تو آئے لب ِ ساحل آئے

موج کی طرح اٹھے اور اسے مل آئے

دل مسافر نہیں، مشتاق ِ سفر ہے ایسا

ڈر ہی جائے جو سوال ِ رہ ِ منزل آئے

ایسے اتری ہے چمن زار میں اک ساعتِ سبز

جیسے نقاش ِگُل و نقش گرِ گِل آئے

پُر سکوں ہے یہ بدن سرد سمندر کی طرح

ہاں، اگر سامنے کوئی مہ ِکامل آئے

شہر دل والوں سے خالی تو نہیں ہے، مانا

کوئی اس عشق ِجہاں تاب کے قابل آئے

سخت مشکل ہے دل و جاں کو سنبھالے رکھنا

روبرو کوئی مسیحا نہیں، قاتل آئے

نیند میں گھنٹیاں بجتی ہیں، غبار اٹھتا ہے

جیسے اس دشت میں اک خواب کا محمل آئے

جس کی غفلت سے اٹھائے ہیں الم سینکڑوں بار

پھر اسی چشم ِفسوں ساز پہ یہ دل آئے

بات کرتے ہیں تو آواز جھلس جاتی ہے 

کون ان شعلہ مزاجوں کے مقابل آئے

ہفت آئینہ تھا یہ خانہء دنیا لیکن

زندگی کرنے کو اکثر یہاں غافل آئے


11


تم مرے دل کی خلش ہو۔۔۔ لیکن



تم مرے دل کی خلش ہو لیکن

دور ہو جاؤ ۔۔ یہ منظور کہاں

ایک سایا، جو کسی سائے سے گہرا بھی نہیں

جسم بھی جس کا نہیں، دل نہیں، چہرا بھی نہیں

خال وخد جس کے مجھے ازبر ہیں

دید ۔۔۔ جس طرح کوئی دیکھتا ہو

راستہ، شیشے کی دیوار کے پار

گفتگو ۔۔۔ جیسے کوئی کرتا ہو

اپنے ہی کان میں اک سرگوشی

لفظ ۔۔۔ جیسے کہ ہو نظمائی ہوئی خاموشی

یہ تعلق ہے بس اک نقش کہ جو ریت پہ کھینچا جائے

باد ِ حیراں سے اڑانے کے لیے

موجہء غم سے مٹانے کے لیے

دشت اس دل کی طرح اپنی ہی تنہائی میں یوں سمٹا ہے

جیسے پھیلا تو فلک ٹوٹ پڑے گا اس پر

کارواں کوئی نہ گزرا کسی منزل کی طرف

گھنٹیاں بجتی رہیں ۔۔۔ نیند کی خاموشی میں

شام ہر روز اترتی ہے سر ِجادہء جاں

وہی اک کہنہ اداسی لے کر

زندگی ڈوبتی جاتی ہے کسی سرد اندھیرے میں ۔۔ مگر

جگمگاتی ہے بہت دور کسی گوشے میں

ایک چھوٹی سی تمنا کی کرن

سائے کا لمس ہے اس دل کی لگن

تم مرے ٹوٹے ہوئے خواب کا اک ذرہ ہو

جو مری آنکھ میں چبھتا ہے تو خوں بہتا ہے

پھر بھی کھو جاؤ یہ منظور کہاں

تم مرے دل کی خلش ہو لیکن ۔۔۔۔۔



12


یہ مسافر




عمر کی سانولی سہ پہر کے کنارے

گزرتے ہوئے وقت کے اِس نشیبی سرے پر

مسافر ۔۔۔ بہت سخت حیراں کھڑا ہے

کہ جس طرح بے انت رستے نے 

اس کے قدم لے لیے ہیں

ہوا کی عمودی گزرگاہ پر ایک پتھر کی صورت

کبھی آسماں پر سیاہی میں ہلکی سی سرخی کے 

اس میل کو دیکھتا ہے

کبھی دور تک دھوپ اور چھاؤں کے

چمپئی کھیل کو دیکھتا ہے

کبھی ہمکلامی کی خواہش سے بیتاب

اور دوسرے پَل ۔۔۔ بس اک لمسِ بے ساختہ کا

حسیں خواب

گہری خموشی کے بے انت میں

زرد تنہائی میں

اور عمروں پہ پھیلی ہوئی ۔۔۔ بے تمنائی میں

سادہ دل ۔۔ سادہ رُو ۔۔ تشنہء آرزو ۔۔۔ اک مسافر

جو عمر ِگریزاں کی اِس سہ پہر کے کنارے

گزرتے ہوئے وقت کے اِس نشیبی سرے پر

بہت خوش تمنا کھڑا ہے

اگر دیکھ پاتا کبھی ۔۔۔ اولیں صبح کی وہ گلابی

اگر دیکھ پاتا ۔۔۔ دہکتی ہوئی دوپہر آفتابی


 

13


کھل رہی ہے رفتہ رفتہ زلف شام یاد پھر

ڈوبتا ہے اس اندھیرے میں دل برباد پھر


اپنے اپنے انتخاب آرزو کی بات ہے

شاد ہوتا ہے کوئی دل اور کوئی ناشاد پھر


گہرے نیلے جنگلوں سے گھوم کر نکلے تو تھا

سامنے اک قریہء بے خواب و بے آباد پھر


رَم بہت کرنے لگا ہے یہ غزال ِ آرزو

پھیلتا جاتا ہے آنکھوں میں وہ دشت ِ یاد پھر


اس قدر نالاں وہ گر الفت کی یکسانی سے ہے

کس لیے ہوتا نہیں اس قید سے آزاد پھر


سیم سی اک پھیلتی جاتی ہے دیواروں پہ کیوں

بھر گئی تعبیر سے کیا خواب کی بنیاد پھر


بات تک کرنے کو گر اس شہر میں کوئی نہیں 

کون سنتا ہے دل ِ بیمار کی فریاد پھر


نیند میں چلنے لگی بھیگی ہوئی ٹھنڈی ہَوا

خواب کے ہمراہ آئی اک پرانی یاد پھر


تن کو چھوتی ہیں کچھ ایسے فروری کی بارشیں

یہ خرابہ ہونے والا ہے ابھی آباد پھر


سامنے ہے پھر سے رنگا رنگ پھولوں کی بہار

دے رہی ہوں اپنے باغ ِ آرزو کو داد پھر



14



جنموں کی تقدیر لے کر



کئی سرد جنموں سے اک عمر لے کر

کئی زرد عمروں سے جاگی ہوئی ایک عورت

جو بے خوابیوں سے فقط خواب بُنتی ہے

اور وصل کے گلستاں سے فقط ہجر چُنتی ہے


دھندلائے رستوں پہ ۔۔۔ بے حد کی جانب رواں

موتیوں کی طرح اشک ۔۔۔ سب راستوں پر گراتے ہوئے

اپنی غزلائی آنکھوں سے

پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھتی


راستوں کے دھندلکوں میں بہتا ہوا وقت

شہر اور جنگل کی وحشت

زمیں پر ستاروں کے سائے

فلک پر کھلے پھول

ساری فضاؤں میں یادوں کی خوشبو

زمانے کی آنکھوں میں حیرت

بہت پُر ستائش نگاہیں

کئی گرم بانہیں ۔۔۔ کئی سرد آہیں


مناظر کسی فلم کی طرح ۔۔۔ تیزی سے

آنکھوں کے پردے پہ چلتے ہیں

ساری زمیں اس کے سوئے ہوئے نرم قدموں کے نیچے

کہیں دور تک بہتی جاتی ہے

اور ذات کے اسم ِخاموش سے

اک خموشی کے متروکہ در کھلتے جاتے ہیں

رستوں میں رستے بدلتے ہیں

سب حادثے ۔۔۔ اپنی باری سے آتے ہیں ۔۔۔ جاتے ہیں


اک عمر میں، کتنے جنموں کی تقدیر لے کر

نگاہوں میں ہستی کی تصویر لے کر

وصال ِمکمل کی تعبیر لے کر

یہ عورت

اسی ہجر کے بے نہایت میں کھو جائے گی

جاگتے جاگتے ۔۔۔ خواب ہو جائے گی


 

15



موسم ِ زرد کا ٹوٹا ہے حصار آخر ِکار

چشم ِ خوں رنگ نے دکھلائی بہار آخر ِکار


کس طرح لوگ مگر منزل ِ جاں پاتے ہیں

ہم ہوئے رستہء ہستی کا غبار آخر ِ کار


عکس آئینے پہ آئینہ ہوا عکس پہ دنگ

ایک سے لگنے لگے نقش ونگار آخر ِکار


خواب، مہتاب، ستارہ کہ مرے دل کی صدا

کون اترے گا تری رات کے پار آخر ِکار


راہ کے دونوں طرف پیڑ کھڑے تھے حیراں

سامنے تھا ۔ ۔ ۔ وہ تمنا کا دیار آخر ِکار


گاہے گاہے ہی سہی اٹھنے لگی چشم ِکرم

رفتہ رفتہ ملا اس جاں کو قرار آخر ِکار


زرد ہونے سے ذرا قبل کھلا شاخ پہ پھول

گلشن ِجاں میں چلی بادِ بہار آخر ِکار


دوستوں کا یہی احساں ہے یہی مجھ پہ ستم

جان لی تو نے مری حالتِ زار آخر ِکار


دن کے ساتھ آئے گا تلخابِ غم ِدوراں بھی

ٹوٹ ہی جائے گا اس شب کا خمار آخر ِکار


ہم نے پتھر کی طرح آنکھ میں رکھے آنسو

بے حسی، تجھ پہ ہے اب دارو مدار آخر ِکار


کچھ ضروری تو نہیں منزل ِمقصود ملے

ختم ہو جائے اگر راہگزار آخر ِکار


موج کے ساتھ کوئی عکس بہا جاتا ہے

چشم ِحیراں بھی چلی جائے گی پار آخر ِکار


بے دلی، دل سے لپٹ جاتی ہے پہلے آ کر

بنتا جاتا ہے مرے گِرد حصار آخر ِکار


صبح کو بھول گئے جیسے ستاروں کا حساب

ترک کر دینا ہے زخموں کا شمار آخر ِکار


عندلیبِ چمن ِ عشق جو ٹھہرا تھا یہ دل

اک فسانے سے بنے ایک ہزار آخر ِکار


اس قدر محو رکھا چشم ِ محبت نے کہ بس

ہم بھی کہلانے لگے خواب نگار، آخر ِکار