ثمینہ راجہ


میں یہ نہیں بتانا چاہتی کہ کوئی شخص شاعر کیسے ہو جاتا ہے

میں تو بس یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ کبھی تم نے گرمیوں کی
 
دوپہروں میں آسمان کا رنگ دیکھا اور فاختہ کی لمبی

نڈھال آواز سنی ہے ۔ ۔ ۔ گھو گھو ۔ ۔ ۔ گھو ۔ 

 
خزاں کی سہ پہروں میں، جنگلوں میں سنسناتی ہواؤں کو
 
محسوس کیا اور درختوں کی کراہیں سنیں ۔ سرما کی گہری سیاہ 

غم ناک شامیں، گھر کے پچھلے باغ میں تنہا بیٹھ کر گزار دیں ۔

رات کے پہلے پہر، ڈار سے بچھڑ جانے والی کونج کی

چیخ سنی ہے ۔ آخری پہر کبھی چونک کر جاگے

اور اپنے سر پر کسی نادیدہ پرندے (یا فرشتے کے پروں کی 

پھڑپھڑاہٹ محسوس کی ہے ۔ صبح ِ کاذب کے وقت، فلک پر

ایک نقرئی غبار دیکھا ہے ۔ صبح ِ صادق کے وقت

چڑیوں کی حمد کے ساتھ، ملحقہ مسجد سے ابھرتی

'' فاتحہ'' یا ''الرحمٰن '' سنی ہے؟ ۔ 

اگر نہیں ۔ تو تم مجھے کبھی نہیں جان سکتے


ثمینہ راجہ

-------------
1998

 

1


شدت کے موسم


مجھے موسموں کی شدت پسند ہے

ہم گرما کے وسط میں ملتے تھے

اور شدت کے جاڑوں میں ملتے تھے

اور دونوں کی سرحد پر جدا ہو جاتے تھے

جیسے مرغابیاں

سرما کے آغاز میں میدانوں کا رخ کرتی ہیں

اور ابابیلیں، گرمی کے آغاز میں 

جھیلوں اور چشموں کو کھوجتی ہیں

ہم دونوں بھی ایک دوسرے کو تلاشتے ہیں

اور جیسے ابابیلیں، بارش کی دعا مانگتی ہیں

ہمارے لبوں پر ملن کے لیے، حرف ِ دعا لرزتا ہے


کاش ہم دونوں پکھیرو ہوتے

سپید برف جیسے بگلے

خاکستری مرغابیاں

یا مٹیالی ابابیلیں

تو ملن میں کوئی شے مانع نہ ہوتی

ایک ساتھ اڑتے اڑتے، بادلوں کو چھو آتے


نہ تم ساحل ہو نہ میں موج

موج کو ساحل کے ملن سے کون روک سکتا ہے

ہم آدمی ہیں

(سب کچھ ہوتے ہوئے بھی کچھ نہیں)


مجھے شدت کی سردی اور شدت کی گرمی پسند ہے

اور موسلا دھار بارشیں

ٹوٹ کر برستی بہار اور خزاں

مجھے تم پسند ہو

کیونکہ تم دنیا کے تمام مردوں سے زیادہ پُرجوش ہو

اور تمہیں میں پسند ہوں

کیونکہ میں دنیا کی تمام عورتوں سے زیادہ گرم جوش ہوں

مجھے نفرت کی مار ڈالنے والی انتہا

اور محبت کی پاگل کر دینے والی انتہا پسند ہے

مجھے شدت پسند ہے

خواہ وصال کی ہو

یا ہجر کی