ثمینہ راجہ


شاعری، دریافت کا عمل تو ہے مگر بہت شعوری عمل نہیں 

جب ایک بحر میں یہ غزلیں پہلے پہل شائع ہوئیں تو احباب نے 

ان کو ایک فنی تجربہ قرار دیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ 95ء اور96ء 

پورے دو سال کے دوران یہ بحر مجھ پر بری طرح طاری رہی ۔

 سو میں نے یہ تمام غزلیں اورزیادہ تر نظمیں بھی اسی بحر میں 

لکھیں ۔ یہ ایک اچانک اور بے اختیار عمل تھا ۔

جبکہ ہیئت کا تجربہ شائد ایک شعوری عمل ہوتا ہے۔  

زندگی کا کوئی تجربہ جب شعر میں ڈھلتا ہے تو وہ تجربہ ہوتے 

ہوئے بھی تجربہ نہیں رہتا ۔ یعنی مرئی نہیں رہتا

غیرمرئی ہو جاتا ہے ۔ جیسے حقیقت میں صحرا عبور کرنا

یا دریا پار کرنا، یا جنگل سے گزرنا، یا محبت کرنا

یا مر جانا بھی تجربہ ہے ۔ اور خواب میں صحرا عبور کرنا

، دریا پار کرنا، جنگل سے گزرنا، محبت کرنا اور مر جانا بھی 

تجربہ ہے ۔ پھر بھی دونوں میں واضح فرق ہے ۔

سو زندگی اگر حقیقت کا تجربہ ہے تو شاعری خواب کا ۔

خواب کے اسرار نے انسان کو جسم سے ہٹ کر

روح کے بارے میں سوچنے پر آمادہ کیا ۔ 

اور شاعری کے اسرار نے اسے کبھی دیوتاؤں کی رضا 

ہومر) اور کبھی پیغمبری کا جزو (مولانا روم) بنا دیا۔

میں نہیں جانتی جو میں لکھ رہی ہوں، یہ فن ہے یا نہیں

تجربہ ہے یا نہیں ۔ میں تو اتنا جانتی ہوں کہ میں وہ بتا رہی ہوں 

جو زندگی نے مجھے سکھایا ہے ۔

اور وہ سنا رہی ہوں جو شاعری نے میرے کان میں پھونکا ہے ۔ 

پڑھنے اورسننے والے اسے کیا سمجھتے ہیں، کیا مقام دیتے ہیں

یہ ان کا مسئلہ ہے ۔ 

محبت کی طرح شاعری بھی اپنا اپنا مسئلہ ہے


ثمینہ راجہ

--------------------

1998


 

1


تنہا، سر انجمن کھڑی تھی

میں اپنے وصال سے بڑی تھی


اک پھول تھی اور ہوا کی زد پر

پھر میری ہر ایک پنکھڑی تھی


اک عمر تلک سفر کیا تھا

منزل پہ پہنچ کے گر پڑی تھی


طالب کوئ میری نفی کا تھا

اور شرط یہ موت سے کڑی تھی


وہ ایک ہواےء تازہ میں تھا

میں خواب قدیم میں گڑی تھی


وہ خود کو خدا سمجھ رہا تھا

میں اپنے حضور میں کھڑی تھی



2


ہمت مرا دل جو کھو رہا ہے

یہ جسم بھی سرد ہو رہا ہے


دشمن ہے مگر یہ کیسے کہہ دوں 

کچھ روز وہ دوست تو رہا ہے


کیا رنج ہے جس کو اوڑھ کر دل

پہلو میں خموش سو رہا ہے


کالک تو نصیب پر لگی تھی

معصوم ہے چہرہ دھو رہا ہے


کیوں بھیگ رہی ہے رات میری

کیا کوئی کہیں پہ رو رہا ہے


اک خواب ہے جو امید کا بیج

پھر آنکھ میں میری بو رہا ہے


پھر خالق باد و آب و گل کا

کونپل میں ظہور ہو رہا ہے


اک آہ کے ساتھ جاگ اٹھے گا 

اس خاک میں شعلہ سو رہا ہے




 

3



گو سایہء دیں پناہ میں ہوں

زندہ تو خود اپنی آہ میں ہوں


اُس منزلِ خواب کی طلب میں

مدت سے فریبِ راہ میں ہوں


کیا وہ بھی مرا ہی منتظر ہے

اک عمر سے جس کی چاہ میں ہوں


باہر تو لگا ہے سنگِ مر مر 

میں دفن مگر سیاہ میں ہوں


پھر شاخ پہ مجھ کو پھوٹنا ہے

غلطاں ابھی خاک و کاہ میں ہوں


غم دینے کو تو نے چُن لیا ہے

خوش ہوں کہ تری نگاہ میں ہوں


کیسے تری حیرتی نہ ٹھہروں

گُم، انجم و مہر و ماہ میں ہوں


جو عشق مثال بن چکا ہے

اُس منزلِ غم کی راہ میں ہوں




4



اب پھول چنیں گے کیا چمن سے

تو مجھ سے خفا، میں اپنے من سے


وہ وقت کہ پہلی بار دل نے 

دیکھا تھا تجھے بڑی لگن سے


جب چاند کی اشرفی گری تھی

اک رات کی طشتری میں چَھن سے


چہرے پہ مرے جو روشنی تھی

تھی تیری نگاہ کی کرن سے


خوشبو مجھے آ رہی تھی تیری 

اپنے ہی لباس اور تن سے


رہتے تھے ہم ایک دوسرے میں 

سرشار سے اور مگن مگن سے


یہ زندگی اب گزر رہی ہے

کن زرد اداسیوں کے بن سے


کیا عشق تھا، جس کے قصّے اب تک

دہراتے ہیں لوگ اک جلن سے



 

12

چاہے تو یہاں لگائے ڈیرا 

ہے خانہ بدوش عشق تیرا

 

ہاتھوں سے چھپاؤں تن کہ چہرا

ملبوس تو جل گیا ہے میرا

 

سورج سا غروب ہو رہا ہے

اترا مرے جسم پر اندھیرا

 

اک سانپ لگا ہوا تھا پیچھے

اک ناگ نے راستے میں گھیرا

 

آسیب نہ تھا تو کون شب بھر

گلیوں میں لگا رہا تھا پھیرا

 

دل، ایک ہی یاد کا پرندہ

کرتا کسی شاخ پر بسیرا

 

آیا ہے اگرچہ ڈرتے ڈرتے

ٹھہرے، مرے شہر پر سویرا

 

دھندلانے لگی ہے تیری صورت

آنکھوں پہ جھکا ہوا اندھیرا

 

چھوڑے مجھے میرے حال پر تو

احسان یہی بہت ہے تیرا

 



12

 چمکا، ترے نام کا ستارہ

مدھم ہوا شام کا ستارہ

 

اب ہاتھ بڑھا کے مجھ کو چھو لے

میں ہوں ترے بام کا ستارہ

 

ہونٹوں پہ شرار بن گیا ہے

چھلکے ہوئے جام کا ستارہ

 

جب چاند مرا، نہیں افق پر

میرے نہیں کام کا ستارہ

 

ماتھے پہ سجا کے گھومتی ہوں

بس ایک ہی نام کا ستارہ

 

منزل تھی بہت ہی دور میری

وہ شخص تھا گام کا ستارہ

 

آقاؤں کے بجھ گئے تھے سورج

ابھرا جو غلام کا ستارہ

 

تنہا مجھے دیکھ کر، جو رویا

تنہا تھا وہ شام کا ستارہ


 



13

 یہ عشق لگا رہے جبیں سے

دل شاہ بنا اسی نگیں سے

 

یہ کرۂ رنج ِزمہریری

پگھلے گا اک آہ ِآتشیں سے

 

ہے زندگی کیسی نا ملائم

اور خواب ہیں کیسے مخملیں سے

 

اترے تھے کبھی مرے بدن پر

کچھ رنگ، سپہر ِنیلمیں سے

 

وہ ڈھلتا ہوا بہار کا دن

وہ شام کے سائے سرمگیں سے

 

خورشید وداع ہو رہا تھا

لگتے تھے سحاب احمریں سے

 

وہ شب، وہ کنار ِآب، مہتاب

پھر سامنا ایک مہ جبیں سے

 

میں اپنی نگاہ چھوڑ آئی

لپٹی، اُسی چشم ِشبنمیں سے

 

ٹوٹا تو لکیر بن گئی تھی

ملتا تھا ستارہ جب زمیں سے

 



 

14

سورج سے گری تھی اک کرن سرخ

ہے آج تلک زمیں کا تن سرخ

 

آیا ہے وہ جان ِبزم جب سے

ہونے لگا رنگ ِانجمن سرخ

 

کیا قتل ہوئی ہے کوئی خواہش

کیوں ہو گیا دل کا پیرہن سرخ

 

چہرہ ہے سپید فرط ِغم سے

آنکھوں میں جَڑے ہیں دو رتن سرخ

 

کیا آگ لگائی تھی خزاں نے

جل کر جو ہوا ہے سارا بن سرخ

 

شب، ہونٹ ترے سلگ رہے تھے

اب تک مرے عارض و دہن سرخ

 

سوزش تھی تمام رات دل میں

اور صبح تلک ہوا بدن سرخ

 

بدلا ہے چمن کا رنگ ایسے

لالہ ہے سفید، یاسمن سرخ

 

 


15


اک شمع ِکمالِ سر خوشی ہوں 

اور اپنی خوشی سے جل رہی  ہوں

ہوں نیند کی کیفیت میں گویا

گر بات کرو تو جاگتی ہوں

رستے میں پڑی ہوں روز و شب کے

کس شاخ سے ٹوٹ کر گری ہوں

پتھر ہی بنا لیا ہے خود کو

پتھر کے تلے اگر دبی ہوں

کیا آگ مجھے جلا رہی ہے

کس خاک کی مشت سے بنی ہوں

آندھی کی لپیٹ میں بدن ہے

اور روح میں اپنی گونجتی ہوں

ہوں موت سے مستعار شاید

ہونے کو تو ایک زندگی ہوں

معصوم، فرشتے اور پیمبر

اور میں تو فقط اک آدمی ہوں

تنہائی، خداؤں کا مقدر 

میں تیرے وصال سے بڑی ہوں