ثمینہ راجہ


پوری طرح یاد نہیں کہ وہ کون سا موسم تھا


جب پہلی بار اس نے مجھے دیکھا اور مجھ پر مہربان ہوئی ۔

 
بس اتنا یاد ہے، میں بہت تنہا تھی ۔

 انسانوں سے بھری ہوئی دنیا میں


 رشتوں ناتوں سے بھرے ہوئے گھر میں، میں تنہا تھی ۔ 

اور میں سوال کرتی تھی ۔ بہت سوال، اپنے آپ سے ۔


 اور میں زندگی کو عجب شے خیال کرتی تھی ۔ 

ایک بے چین تلاش تھی میرے اندر، معلوم نہیں کس کی ۔


 
ایک کھَولتا ہوا عشق تھا، پتہ نہیں کس سے ۔

 ایک جاں لیوا فراق تھا، خبر نہیں کس کا ۔ 

اس عالم ِ وحشت میں آدمی یا تارک الدنیا ہو جاتا ہے


 
یا شاعر ہو جاتا ہے ۔
 
سو میرے نصیب کہ خواب کے یا بیداری کے
 
کسی الوہی لمحے میں

 اس نے مجھے اپنے لیے چن لیا ۔

 شاعری نے 


اس نے میرے تپکتے ہوئے دل پر

 
اپنا ٹھنڈک سے بھرا شبنمیں ہاتھ رکھا ۔
 
اس نے مجھے بتایا کہ ہر جاگتا ہوا ذہن، سوال کرتا ہے ۔

 ہر دھڑکتا ہوا دل، محبت کرتا ہے ۔ 

اس نے مجھے بتایا کہ ہر آدمی کی ایک تلاش ہوتی ہے ۔


 
ایک عشق ہوتا ہے ۔ ایک فراق ہوتا ہے ۔

 ہر آدمی کا ایک شہرِسبا ہوتا ہے ۔  


پھر اس نے میرا ہاتھ پکڑا

 
اور مجھے میرے 
شہرِسبا کی طرف لے گئی ۔




ثمینہ راجہ

------------------

1997




                                          1


ترا نام




ترا نام دن کے زوال پر مری روشنی

ترا نام شام ِ سفر، ستارہء رہبری

ترا نام شہر ِ ملال میں، کفِ دوستی

ترا نام میری متاع ِ جاں، مری شاعری

مجھے ہر پڑاؤ پہ چاہیئے، تری ہمدمی






2



نہ شوق ہے، نہ تمنا، نہ یاد ہے دل میں

کہ مستقل کسی غم کی نہاد ہے دل میں


ہے الف لیلہ ولیلہ سی زندگی در پیش

سو جاگتی ہوئ اک شہر زاد ہے دل میں


جو ضبط چشم کے باعث نہ اشک بن پایا

اس ایک قطرہء خون کا فساد ھے دل میں


پھر ایک شہر سبا سے بلاو ا آیا ہے 

پھر ایک شوق سلیماں نژاد ھے دل میں


ہے ایک سحر دلآویز کا اسیر بدن

تو جال بنتی، کوئ اور یاد ہے دل میں


تمام خواہشیں اور حسرتیں تمام ہوئیں

مگر جو سب سے عجب تھی مراد ہے دل میں





3



میں تمہارے عکس کی آرزو میں بس آٰ ئنہ ہی بنی رہی

کبھی تم نہ سامنے آ سکے،کبھی مجھ پہ گرد پڑی رہی


وہ عجیب شام تھی،آج تک میرے دل میں اس کا ملال ھے

میری طرح جو تیری منتظر،تیرے راستے میں کھڑی رھی


کبھی وقف ہجر میں ہو گئ کبھی خواب وصل میں کھو گئ

میں فقیر عشق بنی رہی، میں اسیر یاد ہوئ رہی
 


بڑی خامشی سے سرک کے پھر مرے دل کے گرد لپٹ گئ

وہ رداےء ابر سپید جو ، سر کوہسار تنی رہی


ہوئ اس سے جب میری بات بھی،تھی شریک درد وہ ذات بھی

تو نہ جانے کون سی چیز کی میری زندگی میں کمی رہی 




4



پیا باج پیالہ پیا جائے نا





مجھے ایسی دوری کی عادت نہیں تھی

کہ جو زندگی کی رگوں سے

جواں خون کی آخری بوند تک کھینچ لے

جسم کا کھیت بنجر کرے


اِس لیے جب سے تو اُس سفر پر گیا

میں نے آئینہ دیکھا نہیں

ساری دنیا سے اور آسماں تک سے پردہ کِیا

میں نے سردی میں دھوپ اور گرمی میں

سائے کی پروا نہ کی

زندگی کو نہ سمجھا کبھی زندگی

عادتاً سانس لی


بھوک تو مر گئی تھی جدائی کی پہلی ہی ساعت میں

لیکن ابھی پیاس باقی ہے 

اور ایسی ظالم کہ میرے بدن پر ببول اُگ رہے ہیں

زباں پر بھی کانٹے پڑے ہیں


مجھے ایسی دوری کی عادت نہیں ہے

کہ جو موت اور زندگی میں کوئی فرق رہنے نہ دے

پھر بھی یہ جان لے

گر مجھے چشمہء آب ِ حیواں بھی مل جائے

اک بوند

تیرے بنا مجھ پہ جائز نہیں




5



غم کی پہلی بہار میں





وہ جو غم کی پہلی بہار میں بنے آشنا

انہیں کوئی غم کا سندیس بھیج کے دیکھیے

انہین پوچھیے

کہ نگاہ ِ وصل شناس میں کوئی اور ہے

جو ستارہ وار بلا رہا ہے کسی طرف

کہ یہ اپنی ذات سے کشمکش کی دلیل ہے


کوئی کیا کہے

کہ نئے جہان کی آرزو کے طلسم سے ہے

زبان گنگ

کوئی سنے بھی تو کیا سنے

کہ بلا کا شور امڈ رہا ہے فصیل ِشہر ِخیال سے

یہ جو حد ِشہر ِخیال ہے

یہ جُنوں کے گِرد خرد کی ایک فصیل ہے

یہ دلیل ہے

کہ وہ اپنی ذات کے عشق میں رہے سرگراں


انہیں کوئی نامۂ عشق بھیج کے دیکھئے

کہ اِدھر بھی ایک ستارہ ہے

جو نئے جہاں کی سبیل ہے

انہیں ڈھونڈیے

وہ جوغم کی پہلی بہار میں ۔۔۔ بنے آشنا




6



تاج محل



میں تیرے مقابل کھڑی ہوں

قدم آگے بڑھتے نہیں ہیں

یہ میں جاگتی ہوں ۔۔۔ کہ میں خواب میں ہوں

تجھے اک نظر دیکھتی ہوں


یہ غم سے پگھلتی ہوئی میری آنکھیں

پلک پر جو اٹکا ہے آنسو

اسے اپنی انگلی کی اس پور پر لے کے دیکھوں

یہ آنسو ہے میرا کہ تو ہے؟


بڑھاتی ہوں ہاتھ اپنا ۔۔۔ بھیگی ہتھیلی

ہتھیلی پہ دل ہے

تمنا کا مسکن ۔۔۔ محبت کا مدفن

مرا دل، مرا دل

یہ دل ہے کہ تو ہے؟


تجھے سامنے دیکھتی ہوں

میں حیرت سے پھر

اپنے چاروں طرف گھومتی ہوں

یہ میں ہوں

یہ میں ہوں کہ تو ہے؟




7



یہ عشق ِسپہر رنگ میرا



یہ زیست اگرچہ پُرخطر ہے

جنگل میں یہ شام کا سفر ہے


لیکن مرے ساتھ چل رہا ہے

سایا، کہ خیال، یا تصور

اس عرصۂ زندگی میں شاید

آئے ، مری طرح اک مسافر


اک نرم و لطیف مسکراہٹ

ہر گام پہ دیتی ہے پناہیں

ہر سمت سے مجھ کو گھیرتی ہیں

وہ راز کی طرح، چپ نگاہیں


اک عشق ِسپہر رنگ پھر سے

آنکھوں میں قیام کر رہا ہے

اک خواب کے فاصلے سے کوئی

اس دل سے کلام کر رہا ہے





8



کیسے نہ رنگِ رُخ نظر آئے اُڑا ہوا

خود کو ہے زد پہ موج ِہوا کی رکھا ہوا


لمحات ِعیش چند تھے اور وہ بھی مختصر

عمر ِگریز پا سے مگر کب گلہ ہوا


شانہ کوئی نہیں ہے کہ سر رکھ کے روئیے

بس یوں ہے دل پہ ضبط کا پتھر رکھا ہوا


ہاتھوں میں پھول، آنکھ میں آنسو لیے کوئی

اک عمر سے ہے راہ ِوفا میں کھڑا ہوا


ہر خاک میں نمو نہیں پاتا ہے نخل ِغم

اس سرزمین ِعشق میں لگ کر ہرا ہوا


وہ شخص خود پسند و خود آرا و خود نِگر

اِس دل کو دیکھئے یہ کہاں مبتلا ہوا


وابستگان ِخواب سے پوچھو کہ ان کے ساتھ

” عبرت سرائے دہر“ سے گزرے تو کیا ہوا


ق


ہر صبح ِانتظار سے شام ِملال تک

لگتا ہے وقت حد ِازل پر رکا ہوا


اور رات بھی قیامت ِصغرٰی سے کم نہیں

دل میں ہے ایک یاد کا خنجر گڑا ہوا





9



ایلی ایلی لما سبقتنی






دل مرا خون ہوا 

اور مرا تن خاک ہوا

پیرہن ذات کا بوسیدہ ہوا

چاک ہوا


شہر ِجاں 

مثل ِکراچی سوزاں

لرزاں و ترساں و گریاں

ویراں


شام اترتی ہے تو اندھیارے سے

خوف آتا ہے

اک دعا چاروں طرف گونجتی ہے

لوٹ کر خیر سے گھر کو آئیں''

وہ گل اندام، وہ مہ رُو میرے

آنکھ کے موتی، جگر کے ٹکڑے


رات آتی ہے تو دل ڈوبتا ہے

میرے اطراف میں اک وہم کا خونی سایا

کوئی ہتھیار لیے، گھومتا ہے

نیند میں جائے پنہ ملتی نہیں

کسی منزل کے لیے رخت ِسفر باندھنا کیسا

کوئی رَہ ملتی نہیں

شہر یاران جدال ِ کمی و بیش میں گم)

اور نادیدہ عدو ۔۔۔ سازش ِ پیہم میں مگن


نہیں معلوم مرا کون سا دوست

مرغ کی بانگ سے پہلے مرا انکار کرے

کس اندھیرے میں، کہاں، کوئی غنیم

گھیر کر وار کرے

نہیں معلوم

کہاں تک مجھے خود اپنی صلیب

اپنے کاندھوں پہ اٹھائے ہوئے اب چلنا ہے

نہیں معلوم مگر پاؤں مرے کانپتے ہیں

دل مرا جب ڈوبتا ہے

اک صدا ہونٹوں پہ سسکی کی طرح آتی ہے

 
اے خدا ! میرے خدا
تو نے بھلا
 

کیوں مجھے تنہا چھوڑا؟


--------------------------

ایلی ایلی لما سبقتنی ۔۔۔۔ 
عیسٰی علیہ السلام کے آخری الفاظ





10



 
سزا





جاؤ

نفرت کرنے والوں کے چہروں کو دیکھو

ان کی آنکھیں ۔۔۔ دوزخ کے دروازے ہیں

اور تہہ خانوں میں جلتی اگ سے

ان کے دِلوں کی دیواریں کالی ہیں


ان چہروں کو دیکھو جن کے دانت

دہن سے باہر جھانکتے رہتے ہیں

 
اور بات کریں


تو منہ سے ان کے کف بہتا ہے

جن کا سامنا سچائی سے ۔۔ نا ممکن ہے

جو پھولوں کو روند کر آگے بڑھ جاتے ہیں

جن کے روشن دان پہ کبھی پرندے

بیٹھ کے گیت نہیں گاتے

جن کے آنگن میں جا کر

دھوپ اور بارشیں عفت کھو دیتی ہیں

جن کی زبانیں

خوش لفظوں سے ۔۔۔ نا واقف ہیں

جن کے حرف کسی اچھے کی سماعت سے ٹکرا کر

پتھر بن جاتے ہیں

وہ ۔۔ جو لوگوں کی خوشیوں کی موت پہ

خوشی مناتے ہیں

سائل پر کتے چھوڑتے ہیں

اور اپنے دروازوں پر

کالے، پیلے رنگ سے ۔۔۔ کھوپڑیاں بنواتے ہیں

جاؤ۔۔۔ اور ان چہروں کو دیکھو

آج سے تم

ان میں شامل ہو






11



سفر آغاز کِیا کیا کہ سسکنے لگی ریت

سانس میں بھر گئی آنکھوں میں کھٹکنے لگی ریت


دل کو پتھر سے جو ٹکرایا تو جلنے لگی آگ

تن پہ صحرا کو لپیٹا تو بھڑکنے لگی ریت


ترے سناٹے میں اس طرح سے گونجی مری بات

کہ مرے پاؤں کے نیچے سے سرکنے لگی ریت


تیز رَو اتنا نہ بن اے مرے صحرا زادے

صبر اے دل! تری رفتار سے تھکنے لگی ریت


غم مرا تھا مگر اک عمر سے گریاں ہے یہ رات

جوگ میرا تھا، جسے لے کے بھٹکنے لگی ریت


اب کریدے بھی تو کیا پائے گا یہ ناخن ِہوش

اور گہرائی میں کچھ اور دہکنے لگی ریت


کس کی آواز کا جادو تھا کہ بہنے لگی رات

کس کی آہٹ کا فسوں تھا کہ دھڑکنے لگی ریت


چاند نکلا ۔ ۔ ۔ تو بہت دور تلک پھیل گیا

نیند سے جاگ اٹھی اور چمکنے لگی ریت





12



وہ شام ذرا سی گہری تھی




ان ہجر زدہ اور رنجیدہ

آنکھوں سے ذرا نیچے جُھک کر

تری یا د میں بھیگے رخساروں کے

زرد کناروں پر آ کر

گھبرائی ہوئی سی اُتری تھی

اور تھوڑی دیر کو ٹھہری تھی


اب یا د نہیں تری آنکھوں میں

کوئی خواب تھا ۔۔۔ کوئی ستارہ تھا

ترے ہونٹوں کی ان قوسوں پر

کوئی لفظ تھا ۔۔۔ کوئی اشارہ تھا

کیا شام کے رستے پر رُک کر

ترے دل نے مجھے پکارا تھا؟


بس یاد ہے اتنا جب دل نے

اس عمر کی حد سے کچھ پیچھے 

اک بار پلٹ کر دیکھا تھا

رستوں پہ کھلے سب پھولوں پر

اک ابر کا سایا جھکتا تھا

اور شام ذرا سی گہری تھی





13



بہشت







کیسا اچھا تھا




ہم پھولوں والے باغ میں مل کر رہتے



اور اُس گہرے کنج میں




جس میں جھانک کے میں چیخی تھی



اور تیرے سینے سے لپٹ گئی تھی




اپنی اپنی فکروں کی گٹھڑی کو رکھ کر



بھول ہی جاتے



بہتر ہوتا
 



ہم اپنے اپنے چغے اور دستار اتار کے



اس گٹھڑی میں رکھ دیتے



اور پتوں کا ملبوس پہن کر



گھٹتے بڑھتے سایوں سے باتیں کرتے



پھر جب تو پورا سورج بن کر ہنس پڑتا 



میں آدھا چاند بنی، پہروں روتی رہتی



تو اپنے ہونٹوں سے میرے آنسو پیتا



پھر جب میں رات کی رانی ہوتی



تب تو بھنورا بن کر ساری راتیں 



۔ ۔ ۔ مجھ پر منڈلاتا



پھر جب تو دن کا راجا ہوتا



میں تتلی کے روپ میں



تیرے چاروں اور پھرا کرتی



صبحوں میں تیرے میرے سِحر کی روشنی 



اور شاموں میں تیری میری 



آسیبی آنکھوں کا سرمہ ہوتا



پھر سب طائر



اپنی اپنی بولی بھول کے



صرف ہمارا نغمہ گاتے



ہر جانب سے خلقت آتی



اور ہم میں شامل ہو جاتی




پھر باہم سب سمتوں میں



ہم اپنے رب کو



سجدہ کرتے





14


پھر اُسی معبد



پھر اُسی معبد کی ویراں سیڑھیوں پر

زندگی

بازو بریدہ، سر برہنہ، آبلہ پا، آ گئی ہے

جس جگہ سے آرزو کے سبزہ زاروں کی طرف

رختِ سفر باندھا

لہو کی تال پر نغمہ سرائی کی


محبت کیا ہے

جس کی آرزو میں لوگ مر جاتے ہیں

شاید ایک رستہ ہے

کہ جس پر چلتے جانا، چلتے جانا ہے ضروری

سوچنا منزل کے بارے میں عبث ہے


ایک باغیچہ ہے

جس کے پھول کانٹوں سے بھرے ہیں

اور کسی نے آج تک چکھے نہیں اس کے ثمر

یا ایک بازیچہ ہے

اور بازیچۂ طفلاں نہیں ہے


لوگ مر جاتے ہیں

یہ معلوم ہے ۔۔۔ پھر بھی

اُسی معبد کی ویراں سیڑھیوں پر

دل شکستہ زندگی ہے

اور دل میں آرزو ہے پھر محبت کی




15


جہاں زاد



 جہاں زاد''

نیچے گلی میں ترے در کے آگے

یہ میں سوختہ سَر

حَسن کوزہ گر ہوں


جہاں زاد

الفت کی ماری، محل سے اتر، پا پیادہ

عَقب میں حسن کوزہ گر کے چلی

''واہموں کے گِل و لا کی جانب

کہ خوابوں کے سّیال کوزوں کی جانب''

کہ جن کی چمک سے وہ نیندوں میں بھی مضطرب تھی


حَسن کوزہ گر اُس کو لایا تو بولا

جہاں زاد! اب تجھ کو رہنا ہے یاں

میری خدمت میں ہر وقت حاضر

کہ گویا تو ہے اب '' گِل و رنگ و روغن کی مخلوق ِبے جاں


حَسن کوزہ گر میرے پیارے! کہاں ہے ترا چاک

اور تیرے سارے ''گل و لا کے خوابوں کے سیّال کوزے

وہ کوزے ترے دست ِچابک کے پُتلے 

کہ میں جن کی رنگت سے، خوشبو سے

نیندوں میں بھی مضطرب تھی؟


حَسن کوزہ گر نے ہٹایا نقاب اور اتارا لبادہ حَسن کوزہ گر کا

جہاں زاد دہشت سے چیخی

وہ جب ہوش میں آئی، اپنے تئیں اُس نے زنداں میں پایا

جہاں زاد اب ''پا بہ گِل، خاک بر سر، پریشان، ژولیدہ مو، سربہ زانو

تو بارہ برس پھر جہاں زاد خدمت میں حاضر رہی تھی

جہاں زاد انساں تھی لیکن وہ بارہ برس 

'غم کے قالب ' میں گزرے تھے

اور ''قاف کی سی افق تاب آنکھوں میں '' اشکوں کا سیل‌ ِرواں تھا

وہ آہیں، وہ نالے، وہ زنداں سے باہر نکلنے کی خواہش

''گِل و لا کے سّیال کوزوں کی حسرت


حَسن کوزہ گر تنگ آیا

اٹھا اپنی آہیں، اٹھا اپنے نالے، تمنّا کی وسعت، نکل جا چلی جا


حَسن کوزہ گر! اے حَسن کوزہ گر! اے مری جاں

یہ بارہ برس مجھ پہ اِس طرح گزرے

''کہ جیسے کسی شہر ِمدفون پر وقت گزرے 

میں بارہ برس اور خدمت میں حاضر رہوں گی

اگر صرف اک بار مجھ کو دِکھا دے

"صراحی و مینا و جام و سبو اور فانوس و گلداں

وہ اظہار ِفن کے سہارے '' کہ میں جن کی چاہت میں 

محلوں سے اتری تھی اور تیرے پیچھے چلی پا پیادہ


نکل بے وفا! تجھ کو مجھ سے ہیں پیارے

وہ مہجور کوزے، وہ سوکھے تغار اور پیالے؟

وہ جن سے مرا دور کا بھی تعلق نہیں ہے

فضول اور بیکار لوگوں کا فن


تب جہاں زاد چونکی 

اتارے سلاسل اور اسباب باندھا

اٹھایا نقاب اورلبادہ حسن کوزہ گر کا

اسے چوم کر سر پہ رکھا


حَسن کوزہ گر دُزد کے بھیس میں اب بڑھا 

اور چُرائے یقین اور بھروسا اور انگشتری

سارے اسباب میں بس یہی قیمتی تھا، جو چوری ہوا


تو بولا حسن کوزہ گر اب

اٹھا اپنی خدمت، محبت، وفا، ساری بیکار چیزیں

مگر چھوڑ جا میرا اسباب، میرے ظروف اور صندوق

میرے زرو سیم اور پارچہ جات اور کفش ِرنگیں

چلی جا مگر چھوڑ جا میری چیزیں


سو رخصت ہوئی

اور جہاں زاد اب جس محلے میں جا کر بسی

واں چھپا کر رکھے

اپنا نام و نسب، اپنی ناموس اور دل کے ٹکڑے

حسن کوزہ گر ایک دن

حاکم ِشہر کے بھیس میں اس محلے میں آیا

کہاں ہیں ترے دل کے ٹکڑے، ادھر پیش کر

یا ادھر لے کر آ اپنا نام و نسب اور ناموس

اور تیسرا راستہ بس یہی ہے

کہ چل اور کر پھر سے بارہ برس میری خدمت


جہاں زاد روئی: حَسن کوزہ گر! دیکھ یہ میں ہوں، تیری جہاں زاد

میں تیری خاطر محل سےاتر پا پیادہ چلی آئی

بارہ برس تیری خدمت میں حاضر رہی

میں شب و روز، ہر پَل، ترے سامنے آئنہ تھی

مرے پاس محفوظ ہے اب تلک

وہ حسن کوزہ گر کا نقاب اور لبادہ

تو دونوں لبادے ( یہی دزد اور حاکم ِشہر کے

گر تلف کر دے تو میں تجھے دوں لبادہ حسن کوزہ گر کا

کہ تو لَوٹ کر جا سکے'' اپنے مہجور کوزوں

گِل و لا کے سوکھے تغاروں کی جانب

معیشت کے، اظہار ِ فن کے وسیلوں کی جانب


مگر شہر والوں کو اب کے حَسن کوزہ گر نے پکارا

اسے دیکھو، یہ فاحشہ ہے

میں اب اِس سے چھینوں گا

نام و نسب اور ناموس اور دل کے ٹکڑے

یہ محلوں سے اتری، مرے پیچھے آئی، مگر اس سے پہلے

ہزاروں کو اس نے دریچے سے تاکا

مگر مجھ سا سادہ کوئی اور کب تھا

مجھے بوڑھے عطار یوسف کی دکاّن پر آخر ِکار پھانسا

بھلا کون ہے یہ لبیب

کہ جو ہاتھ میں پھول، آنکھوں میں آنسو لیے راستے میں کھڑا ہے؟

تو کیا اب مجھے حق نہیں ہے کہ میں اس کو برباد کر دوں؟


تو پھر جوق در جوق بازار میں لوگ آئے

سبھی ہاں میں ہاں پھر حسن کوزہ گر کی ملانے لگے

تب جہاں زاد اٹھی، سبھی دل کے ٹکڑے کیے جمع

قدموں میں رکھے حسن کوزہ گر کے

وہیں ساتھ رکھا نقاب اور لبادہ حسن کوزہ گر کا

فقط اپنا نام و نسب اور ناموس بقچی میں ڈالے 

بغل میں‌ دبائے، اندھیرے میں دزدانہ نکلی 

وہ بچ کر لبیب اور حسن کوزہ گر سے

''تمنا کی وسعت کی کس کو خبر ہے ''

مگر ۔۔۔۔ 


----------------------------------------
ن م راشد مرحوم سے معذرت کے ساتھ
ان کے کرداروں کا استعمال، اپنے فسانے کے لیے
-------------------------------------------------
واوین میں راشد کی سطور ہیں




16



بڑی دیر میں یہ خبر ہوئی





بڑی دیر میں یہ خبر ہوئی -- کوئی چال وقت ہی چل گیا

نہ میں با خبر، نہ میں با کمال

میں خوش گماں ۔۔ تھی اسی خیال سے شادماں

کہ مرا ستارہ بھی گردشوں سے نکل گیا
،
مگرایک رات ہوا چلی، تو ہوا کی سانس میں آگ تھی

یہ گماں ہوا کہ لباس پرکوئی شمع جیسے الٹ گئی

مری چھت سے برق لپٹ گئی

مری نیند ایسے جھلس گئی ۔۔ مرا خواب اس لیے جل گیا
،
نہ وہ آنکھ میں رہی روشنی ۔۔ نہ وجود میں رہی زندگی

یہ بدن جو آج تپیدہ ہے ۔۔ مری روح اس میں رمیدہ ہے

مرے انگ انگ میں درد ہے

یہی چہرہ جو کبھی سرخ تھا ۔۔ ابھی زرد ہے

مرا رنگ کیسے بدل گیا؟

نہیں دن سے کوئی بھی آس اب

ہے اگر نصیب میں پیاس اب

کسی ابر پارے کی چاہ میں ۔۔ کبھی سر اٹھا کے جو دیکھ لوں

تو وہ گرم بوند ٹپکتی ہے ۔۔ کہ یہ جان تن میں تپکتی ہے

مرا آسمان پگھل گیا
،
نہیں غم نہیں ۔۔ کہ ہے میرے ماتھے پہ غم لکھا

مگر اس سے بڑھ کے ستم ہوا

کہ جو حرف مصحفِ دل پہ لکھا تھا عشق نے ۔۔ وہی مِٹ گیا

کسی اختیار کا پھیلتا ہوا ہاتھ تھا ۔۔ کہ سمٹ گیا

کوئی اعتبار کا تار تھا کہ جو کٹ گیا

وہ جو اسم تھا کبھی وردِ جاں ۔۔ وہ الٹ گیا

کوئی نقش تھا ۔۔ کسی اور نقش میں ڈھل گیا