ثمینہ راجہ


یہ میرے سفر کا ساتواں سنگِ میل ہے

خیال تھا، یہاں پہنچ کر میں دم لوں گی

اور اگلی منزل کا تعین کروں گی ۔ 

مگر افسوس! اس پتھر پر بیٹھ کر احساس ہوا


 کہ سفر تو ابھی آغاز ہی نہیں ہوا ۔ 

ابھی تو اس راستے پر قدم ہی نہیں رکھا


 
جو عین منزل تک جاتا ہے ۔

سات کتابیں لکھ ڈالیں، مگر وہ شعر تو کہا ہی نہیں

 
وہ نظم تو لکھی ہی نہیں
 
جو شاعری کا جواز بن سکے ۔


اردو شاعری میں حضرت امیر خسرو سے آج تک

 
کیسے کیسے نام

کیسا کیسا کام پیش ِ نگاہ ہے ۔


ہفت شہر ِ عشق را عطار گشت

ما ہنوز اندرخم ِ یک کوچہ ایم


فن کے باب میں قبول ِ عام اور بقائے دوام

 
دوالگ الگ چیزیں ہیں ۔

کسی کو ایک حاصل ہوتی ہے، کسی کو دوسری ۔۔۔۔۔


بہت کم خوش بختوں کو یہ دونوں نعمتیں ارزانی ہوتی ہیں ۔
 

مگر کیا شاعر قبول ِعام یا بقائے دوام کی خاطر لکھتا ہے؟


شاعر کے پیش ِ نظر شاعری کے علاوہ کچھ اور ہونا چاہیئے؟


میرا خیال ہے ۔۔۔ نہیں



اگر کوئی شاعر ہے
 
تو شاعری ہی اس کی مطلوب و مقصود ہونی چاہیئے ۔۔

دل و نگاہ صرف اسی سے مسحور ۔۔ بدن صرف اسی کا اسیر ۔۔


قلم صرف اسی کے تابع ۔
 

شاعر کا راستہ، پیغمبروں کا، ولیوں کا،
 صوفیوں کا


راستہ ہونا چاہیئے ۔ 

کیونکہ خدا اپنے اسَرار


شاعروں کی زبانوں کے ذریعے بھی افشا کرتا ہے



ثمینہ راجہ

--------------

2001




1


ازل سے، ساتھ کوئی راز آشنا تو نہیں

یہ میرا دل کسی شاہد کا آئنہ تو نہیں

ہر ایک سانس کے ساتھ ایک آہ گونجتی ہے

نفس نفس میں کسی درد کی ثنا تو نہیں

کسی کے خواب کی تعبیر تو نہیں ہیں ہم

وہ خواب اور کسی خواب سے بنا تو نہیں

جو کاٹ آئے ہیں، دکھ کا عجیب جنگل تھا

جو آنے والا ہے، پہلے سے بھی گھنا تو نہیں

صدائے انجم و مہتاب پر بھی دل خاموش

یہ خاکداں کی کشش ہے، مری انا تو نہیں

یہ شش جہات ہیں اور ان کے بعد ہے اک ذات

اس آئنے میں پھر اپنا ہی سامنا تو نہیں؟




2


نہیں ۔۔۔ واقعہ تو نہیں ہم



نہیں ۔۔۔ واقعہ تو نہیں ہم

نجانے گئی شب کے ویران ماتھے پہ 

کس نے ہمیں لکھ دیا

ہم تو خواہش کے کہرے میں لپٹے ہوئے

مخملیں گھاس پر

برف سی چاندنی کے تلے

اک ذرا سو گئے تھے


ہمیں کیا خبر ۔۔۔ ہم کو دنیا نے آواز دی تھی

اگر کوئی آواز آتی تو ۔۔۔۔

نیند اتنی گہری کہاں تھی 

ہمیں کیا خبر ۔۔۔ ہم کو تم نے پکارا تھا

تم نے پکارا جو ہوتا

تو ہم کوئی پاتال میں تو نہ تھے

ہم تو خوابوں کے گلزار میں تھے

وہیں سبزہ زاروں میں

مہکے ستاروں کے نیچے

دمکتے گلابوں میں ۔۔۔ شبنم کے مانند

کچھ دیر کو کھو گئے تھے


نہیں ۔۔۔ گمشدہ تو نہیں ہم

نجانے یہ گہرے، گھنے ہجر کی زرد ساعت پہ

کس نے ہمیں ۔۔۔۔۔۔




3


بارش میں پہاڑ کی ایک شام



بہت تیز بارش ہے

کھڑکی کے شیشوں سے بوچھاڑ ٹکرا رہی ہے

اگر میز سے سب کتابیں ہٹا دوں


 تو چائے کے برتن رکھے جا سکیں گے


یہ بارش بھی کیسی عجب چیز ہے

یوں بیک وقت دل میں خوشی اور اداسی کسی اور شے سے کہاں


تم جو آؤ تو کھڑکی سے بارش کو اک ساتھ دیکھیں

ابھی تم جو آؤ تو میں تم سے پوچھوں 

کہ دل میں خوشی اور اداسی

مگر جانتی ہوں کہ تم کیا کہو گے

مری جان

اک چیز ہے تیز بارش سے بھی تند

جس سے بیک وقت ملتی ہے دل کو خوشی اور اداسی

محبت


مگر تم کہاں ہو؟

یہاں سے وہاں رابطے کا کوئ بھی وسیلہ نہیں ہے

بہت تیز بارش ہے اور شام گہری ہوئ جا رہی ہے

نجانے تم آؤ نہ آؤ


میں اب شمع دانوں میں شمعیں جلا دوں

کہ آنکھیں بجھا دوں؟



 

4


پرندے


پرندے بہت شور کرنے لگے ہیں


مری نیند کچی بہت ہے

ذرا تیز آہٹ

بہت ہلکی دستک سے ڈرتی ہے 

اور ٹوٹ جاتی ہے

اک بار اگر ٹوٹ جائے ۔۔۔ تو پھر

رات بھر اگلے دن کے مسائل

ادھورے سے کچھ خواب ۔۔۔ اور کروٹیں ۔۔۔ 



اور کہا تھا کہ مت لے کر آؤ

ہواؤں فضاؤں کے عادی ۔۔۔ یہ ننھے پرندے

یہ اس قید میں گُھٹ کے مر ہی نہ جائیں

یہ بچے ۔۔۔ بھلا مانتے ہیں کسی کی؟

مگر سخت حیرت ہے مجھ کو پرندوں پہ

اس قید میں ۔۔۔ روز دانہ بھی کھاتے ہیں

اور چہچہاتے ہیں


لکھتی ہوں اور ساتھ ہی ہنس پڑی ہوں

کہ اک عمر دانہ بھی کھایا ہے

نظمیں بھی لکھی ہیں

پرواز کی آرزو بھی کہیں دل میں رکھی ہے

لیکن ۔۔۔۔۔

پرندے تو جب چاہتے ہیں

بہت شور کرتے ہیں



5


وطن کے لئے



وطن کے لئے نظم لکھنے سے پہلے

قلم، حرف کی بارگہ میں

بہت شرمسار و زبوں ہے 

قلم سر نگوں ہے

قلم کیسے لکھے

وطن! تو مری ماں کا آنچل جو ہوتا

تو میں تجھ کو شعلوں میں گِھرتے ہوئے دیکھ کر۔۔ کانپ اٹھتی

زباں پر مری۔۔۔ الاماں۔۔۔ اور آنکھوں میں اشکوں کا طوفان ہوتا

وطن! تو مرا شیر دل بھائی ہوتا۔۔۔ تو

تیرے لہو کے فقط ایک قطرے کے بدلے

میں اپنے بدن کا یہ سارا لہو نذر کرتی

شب و روز۔۔ تیری جوانی

تری زندگی کی دعاؤں میں مصروف رہتی

وطن! تو مرا خواب جیسا وہ محبوب ہوتا

کہ جس کی فقط دید ہی۔۔ میرے جیون کی برنائی ہے

میں ترے ہجر میں۔۔ ر1ت بھر جاگتی۔۔ عمر بھر جاگتی

عمر بھر گیت لکھتی

وطن! تو جو معصوم لختِ جگر میرا ہوتا

تو۔۔ تیری اداؤں سے میں ٹوٹ کر پیار کرتی

بلائیں تری۔۔ ساری اپنے لیے مانگ لاتی

ترے پاؤں کو لگنے والی سبھی ٹھوکروں میں

میں اپنا محبت بھرا دل بچھاتی

وطن! تواگر میرے بابا سے میراث میں ملنے والی

زمیں کا وہ چھوٹا سا ٹکڑا بھی ہوتا

کہ جس کے لیے میرا بھائی

مرے بھائی کے خوں کا پیاسا ہوا ہے

تو میں اپنی جاں کا کوئی حصہ

 
اور جرعہء خوں تجھے پیش کرتی

میں اپنے بدن پر کوئی وار۔۔ دل پر کوئی زخم سہتی

تو پھر شعر کہتی

قلم کیسے لکھے

یہ آدھی صدی سے زیادہ پہ پھیلے بہانے

یہ خود غرضیوں کے فسانے؟

قلم۔۔۔ مہرباں شاعروں کا

قلم۔۔۔ غمگسار عاشقوں کا

قلم۔۔۔ آسمانی صحیفوں کو مرقوم کرنے کا داعی

قلم۔۔۔ نوعِ انساں کی تاریخکا عینی شاہد

قلم۔۔۔ یہ مری عمر بھر کی کمائی

ازل سے ابد تک۔۔ جو راز آشنا ہے

بہت سرخرو اور شعلہ نوا ہے

قلم لکھ رہا ہے

کہ میرے وطن

تو ہی پُرکھوں سے میراث میں ملنے والی زمیں ہے

تو ہی سر پہ پھیلا ہوا آسماں ہے

تو ہی ماں کی گود اور آنچل

تو میرا محافظ، مرا شیر دل بھائی

تو میرا محبوب، وہ خواب زادہ

تو ہی میرا معصوم لختِ جگر ہے

تو ہی میری پہچان اور شان ہے

دل کی ٹھنڈک ہے

نورِ نظر ہے




6


چند گِلے بُھلا دیے چند سے درگزر کِیا

قصہء غم طویل تھا ، جان کے مختصر کِیا


جھوٹ نہیں تھا عشق بھی،زیست بھی تھی تجھے عزیز

میں نے بھی اپنی عمر کو اپنے لیے بسر کِیا


جیسے بھی تیرے خواب ہوں جو بھی ترے سراب ہوں

میں نے تو ریت اوڑھ لی، میں نے تو کم سفر کِیا


تیری نگاہِ ناز کا لطف و گریز ایک ساتھ

شوق تھا کچھ اگر رہا،رنج تھا کچھ اگر کِیا


ٹوٹ کے پھر سے جُڑ گیا خواب کا زرد سلسلہ

میں نے ترے فراق کو نیند میں ہی بسر کِیا


راہ بہت طویل تھی راہ میں اک فصیل تھی

اُس کو بھی مختصر کِیا ،اِس میں بھی ایک در کِیا


ہم تو عجیب لوگ تھے ہم کو ہزار روگ تھے

خوب کِیا جو آپ نے غیر کو ہم سفر کِیا



7


رہ ِ فراق کسی طور مختصر کیجے

جو ہو سکے تو کبھی خواب سے گزر کیجے


ہمارے دل میں بھی منظر عجیب سیر کا ہے

نہ آ سکیں تو بلندی سے ہی نظر کیجے


یہاں پہ چاروں طرف ہے سراغ رستوں کا

پر اختیار کوئی راہ دیکھ کر کیجے


یہ شہر و کوہ و بیابان و دشت و دریا تھے

اب آگے خواب ہے، رک جایئے ، بسر کیجے


بنے تھے خاک سے، ہم کو قیام کرنا تھا

ہوا ہیں آپ، اڑا کیجئے، سفر کیجے


ہم اپنے عہد ِ تمنا پہ اب بھی قائم ہیں

ذرا شریک ِ تمنا کو بھی خبر کیجے



 

8


زندگی جو کہانی بن گئی



جدائی گہرے غم جیسی تھی

غم تھا ۔۔۔ گہرے کالے پانیوں جیسا

بہت ہی بے دعا شب تھی

جب اس نے راستے میں ساتھ چھوڑا

راستے بھی راستوں ہی میں ۔۔۔ بھٹک کر رہ گئے

آنکھوں کے گرد و پیش جتنے بھی ستارے تھے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ٹھٹک کر رہ گئے

اب ٹوٹتی جڑتی ہوئی نیندیں ہیں

اور کچھ اجنبی راتیں

مرے سب خواب

راتوں کے پرندوں کی طرح

اپنے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سے

فضا کو مرتعش کرتے ۔۔۔ اڑے جاتے ہیں

اور گہری خموشی میں ۔۔۔ بہت سہمے ہوئے دل کو

ذرا کچھ اور سہمانے لگے ہیں


مختلف ہے جاگنا فرقت میں ۔۔۔ وصلت سے

بہت ہی مختلف ہے زندگی کرنا

جدا ہو کر محبت سے،

کہانی میں محبت

اصل سے بھی خوبصورت اور طرب انگیز ہوتی ہے

جدائی ۔۔۔ اصل سے بھی ہولناک


میری سب نظموں کا چہرہ

اب جدائی سے مشابہ ہو گیا ہے

زندگی ۔۔۔ کوئی کہانی بن گئی ہے




9


معبد


مرا دل ۔۔۔ شاخ پر سوکھا ہوا پتا نہیں تھا

جو ہوائے ہجر کے بس ایک جھونکے سے 

بکھر جاتا

مرا دل ۔۔۔ راکھ کی چٹکی نہیں تھا

تم ہتھیلی پر بہت ہلکی سی بس اک پھونک سے

جس کو اڑا دیتے

مرا دل ۔۔۔ راستے کا سنگ پارہ تو نہیں تھا

جو تمہارے پاؤں کی ٹھوکر میں رہتا

میرا دل مہماں سرائے بھی نہیں تھا

جس میں تم مہمان بن کر آ اترتے

اور نئی منزل کی خاطر

اس کو ویراں چھوڑ جاتے


میرا دل تو ایک معبد تھا

جہاں تم کو بہت سے کوس

ننگے پاؤں سے چل کر پہنچنا تھا

پرانے طاقچوں پر 

اک چراغ ِ غم جلانا تھا

الوہی خواب میں ڈوبی ہوئی آنکھوں سے
 
اک فرقت زدہ آنسو بہانا تھا

بہت نخوت سے شانوں پر اٹھا ۔۔۔ یہ سر

 جھکانا تھا


مرا دل ایک معبد تھا

اگر آنا تھا تم کو

ترک ِ ہستی

ترک ِ دنیا کر کے آنا تھا



10


میں خود سے پوچھ رہی تھی،کہاں گئے مرے دن

مجھے خبر ہی نہ تھی رائگاں گئے مرے دن


گئے ہیں وحشت صحرا سمیٹنے کے لیے

کہ سوئے بزم و سر گلستان گئے مرے دن


بہت اداس نہ ہو دل شکستگی سے مری

مرے حبیب،مرے رازداں ! گئے مرے دن


خدا کرے کوئ جوئے مراد سامنے ہو

بدوش گرد رہ کارواں گئے مرے دن


کوئ نگاہ، کوئ دل، نہ کوئ حرف سپاس

نہیں تھا کوئ بھی جب پاسباں ،گئے مرے دن


بہت سے لوگ گلی کا طواف کرتے تھے

بس اس قدر ہے مری داستاں،گئے مرے دن




11


تو بھی رخصت ہو رہا ہے دھوپ بھی ڈھلنے کو ہے

میرے اندر اک چراغ شام غم جلنے کو ہے


کب تلک اس ہجر میں آخر کو رونا چاہئے؟

آنکھ بھی خوں ہو گئ دامن بھی اب گلنے کو ہے


گلستاں میں پڑ گئ ہے رسم تجسیم بہار

اپنے چہرے پر ہر اک گل،خون دل ملنے کو ہے


اجنبی سی سر زمیں نا آشنا سے لوگ ہیں

ایک سورج تھا شناسا،وہ بھی اب ڈھلنے کو ہے


ہر نئ منزل کی جانب صورت ابر رواں

میرے ہاتھوں سے نکل کرمیرا دل چلنے کو ہے


شہر پر طوفان سے پہلے کا سناٹا ہے آج

حادثہ ہونے کو ہے یا سانحہ ٹلنے کو ہے


اک ہوائے تند اور ہمراہ کچھ چنگاریاں 

خاک سی اڑنے کو ہے اور آگ سی جلنے کو ہے


سامنے ہے نیند کی لمبی مسافت آج شب

کاروان انجم و مہتاب بھی چلنے کو ہے




12


رو لیجئے کہ پھر کوئی غم خوار ہو نہ ہو

ان آنسوؤں کا اور خریدار ہو نہ ہو


کچھ روز میں یہ زخم چراغوں سے جل بجھیں

کچھ روز میں یہ گرمئی ِ بازار ہو نہ ہو


عجلت بہت ہے آپ کو جانے کی ، جایئے

لوٹیں تو پھر یہ عشق کا آزار ہو نہ ہو


سو جائے تھک کے پچھلے پہر چشم ِ انتظار

اور کیا خبر کہ بعد میں بیدار ہو نہ ہو


دل کو بہت غرور ِ کشیدہ سری بھی ہے

پھر سامنے یہ سنگ ِ در ِ یار ہو نہ ہو


اچھا ہوا کہ آج بچا لی متاع ِ خواب

پھر جانے ایسی جرات ِ انکار ہو نہ ہو


ق


راہوں میں اس کی پھول ہمیشہ کھلے رہیں

قسمت میں اپنی گوشہء گلزار ہو نہ ہو


وہ قصر اور اس کے کلس جاوداں رہیں

ہم کو نصیب سایہء دیوار ہو نہ ہو


جب ہر روش پہ حسن ِ گل و یاسمن ملے

پھر گلستاں میں نرگس ِ بیمار ہو نہ ہو



13


نذرِ اقبال


رات جوان ہو گئی، پرتوِ ماہتاب سے

موج ِ ہَوا کےساتھ ساتھ کِھلنے لگے گلاب سے


عشق میں جیسے زندگی کوئی فسانہ بن گئی

عام سے واقعات بھی ہو گئے خواب خواب سے


ہم نے تو ریگِ ہجر پر، پا لیے نقش ِ پائے یاد

ہم نے تو راستہ لیا دشت میں اک سراب سے


لب پہ نہ آ سکی اگر شدّتِ دل تو کیا ہوا

آنکھ تو خون ہو گئی سوزش ِ اضطراب سے


تُو شبِ پَر فشاں کبھی ہم پہ جو ہوتی مہرباں

چین کی نیند مانگتے ایک قدیم خواب سے


اب تو وہ سخت جاں بھی ہیں سوختہ دل کہ جو یہاں

بچ کے چلے نہ تھے کبھی حدّت ِ آفتاب سے


حیرتِ زندگی سے ہے ۔ ۔ ۔ حیرتِ آئنہ اگر

کس کوخبرکہ آنکھ میں نور ہے کس کی تاب سے


عشق کی اپنی آن ہے، فقر کی اپنی شان ہے

فرق ہے ان کا ذائقہ، لذتِ نان و آب سے


حرف میں میرے کر ظہور اے مری آتش ِنہاں

''طبع ِ زمانہ تازہ کر جلوہء بے حجاب سے''



14


مگر میری آنکھیں



میں اُس رات بھی

زندگی کے اسی گمشدہ راستے پر چلی جا رہی تھی

مرا ہجر مجھ کو لیے جا رہا تھا

مجھے اس کی آنکھیں بلاتی تھیں اکثر

خوشی کے سبھی پھول ۔۔۔ رستے میں گرتے گئے

پر مرے آنسوؤں کا نمک ۔۔۔ میرے ہونٹوں پہ باقی تھا

میری ہتھیلی پہ اس لمس کی یاد تھی

اور مرا ہجر مجھ کو لیے جا رہا تھا

وہی راستہ تھا کہ جس پر اندھیرا ہمیشہ سے بھاری تھا

لیکن ۔۔۔ کبھی کچھ بتا کر تو آتا نہیں حادثہ


پھر کسی نے مری خاک اٹھائی

کسی نے مرے پھول اٹھائے

کسی نے ہتھیلی پہ اس لمس کی یاد دیکھی

کسی نے وہاں جھاڑیوں میں پڑی

میری آنکھیں نہ دیکھیں


اب اک اور ہی راستے پر چلی جا رہی ہوں

مرے آنسوؤں کا نمک ۔۔۔ میرے ہونٹوں پہ باقی ہے

میری ہتھیلی پہ ۔۔۔ اس لمس کی یاد ہے

اور مرا ہجر مجھ کو لیے جا رہا ہے

مگر میری آنکھیں

وہیں جھاڑیوں میں پڑی رہ گئی ہیں 


 

15


ہفت آسمان


(1)

میں‌ آسماں کے کنارے سے لگ کے بیٹھی ہوں

طسم ِخاک سے نکلوں تو اُس طرف جاؤں

وفور ِرنگ سے نکلوں تو لاجورد بنوں

بہت ہی دُور سفر کا بھی اک ارادہ ہے

زمیں کے ساتھ رفاقت کا کوئی وعدہ ہے


(2)

عجیب نیند ہے، جس میں مرے تنفّس پر

خروش ِخواب کوئی دائرہ بناتا ہے

سواد ِہجر مرے تن پہ پھیل جاتا ہے

میں جاگ اٹھتی ہوں اور سبز آسمان کی طرف 

سیاہ ابر کے زینے پہ پاؤں رکھتی ہوں

کوئی خیال مجھے اُ س طرف  بلاتا ہے


(3)

خبر نہیں یہ مرے خوں میں بے کلی کیا ہے

خبر نہیں یہ مرے تن میں آگ سی کیا ہے

خبر نہیں کہ مرے دل کو کس کا آوازہ

زمیں سے دور، خلاؤں سے دور کھینچتا ہے

گڑے ہوئے ہیں گھنی ریت میں مرے پاؤں

اک آسماں مری آنکھوں کی سمت دیکھتا ہے


(4)

لپیٹ رکھی   ہے   گرچہ  دبیز خاموشی

کبھی کبھی میں کوئی اک پرت اتارتی ہوں

کبھی کبھی میں نئی ذات کے حوالے سے

کسی قدیم تصوّر کو پھر پکارتی ہوں

اترنے لگتی دل میں مرے وہ ذات ِ قدیم

ازل سے جس کا تصور مجھے ڈراتا ہے


(5)

عجب ہے لذت ِجاں، جلوہ گاہ ِدنیا میں

تو کھینچتی ہے کشش اور اک نظارے کی

عجب فرود گہ ِدل ہے یہ خرابہ بھی

اور اک ستارۂ نو بھی نظرکو کھینچتا ہے

وہ آسماں جو مرے بال و پر کو کھینچتا ہے


(6)

یہ خاکداں کہ فضائے بسیط میں ہے رواں 

بہت حقیر، فرومایہ اور سر گرداں

فروغ ِخاک سے اس کا وجود قائم ہے

نمود ِ عشق سے اس کا غرور دائم ہے

مدار ِخواب سہی، سحر ِ آفتاب سہی

یہ اپنے گِرد بھی اک دائرہ بناتا ہے


(7)

ملی ہوئی ہے جہاں پر جبین ِارض و سما 

سلام  اہل ِخبر کو اُدھر سے آئے گا

سرود ِنغمہ کہیں یا صریر ِخامہ کہیں

کلام  اہل ِنظر کو اُدھر سے آئے گا

صدائے جنبش ِدل ہو کہ ریزگی گُل کی

حیات ِنو کا پیام اُس طرف سے آتا ہے

وہ آسماں، جو مری خاک کو جگاتا ہے