ثمینہ راجہ


یہ فسانہء عشق نہیں فسانہ ہائے عشق ہے ۔

پہلا حیرت فزا عشق فن سے! جس نے میرے جنم کے ساتھ جنم لیا 

 جو میرے جذبات و احساسات کا مرکز و محور ہے ۔ 

میری روح کی سرّیت کا عکس ہے ۔ 

میرے باطن کے نظاروں کا جمیل ترین اور مکمل ترین نقش ہے ۔ 

میرے دل کی اولین تمنا اور تمنا کی اولین کشش انگیز صدا ہے ۔

دوسرا عشق، گونا گوں تحیرات سے بھری ہوئی اس دنیا سے

 جو ایک معین عرصے کے لیے اس جسم کی قیام گاہ ہے ۔

 رہگزر دوراں پر ایک مہمان سرائے ۔ اشیا سے اٹا ہوا بازار ۔ 

خواہشات سے سجا ہوا ایک صنم خانہ ۔

 دھوکے اور فریب سے گونجتا ایک خالی مکان ۔

 خاموشیوں سے سنسناتا ہوا ایک تاریک جنگل ۔

تیسرا عشق، اسرار سے پر اپنی ذات سے 

جو اس کائنات کا سب سے اہم مظہر ہے ۔ ہر چیز سے عزیز ۔

 ہر شے سے اتم ۔ ہر پیارے سے پیاری

 میں ہوں تو یہ عالم آب و گل ہے ۔

 میں ہوں تو ہر شے، ہر خیال، ہر آواز، ہر وجود با معنی ہے ۔

 میں ہوں تو، تو ہے

مگر میں کیا ہوں؟ مجھے تو آج تک یہی معلوم نہیں ہو سکا

 کہ میں کون ہوں ۔ 

میں وہ نہیں ہوں جو دنیا مجھے سمجھتی ہے ۔

 میں وہ نہیں ہوں جو اپنے ظاہری وجود

 اور ارد گرد پھیلی ہوئی اشیا سے ثابت ہوں ۔

 میں وہ نہیں ہوں جو تو مجھے جانتا ہے ۔

میں اپنے باطن میں تحیرات سے بھری ایک دنیا ہوں ۔

 زندگی کے لیے ایک مہمان سرائے ۔ ہنگاموں سے پر ایک بازار ۔ 

خواہشات کا ایک صنم خانہ ۔ فریب سے گونجتا خالی مکان ۔

 سنسناتا ہوا تاریک جنگل ۔

 میں اپنی ذات میں ایک معمہ ہوں ۔ ایک چیستاں ۔

 میں سر تا سر حیرانی ہوں ۔ میں ایک لا مختتم خلا ہوں ۔ 

بے معنویت کا ایک شعبدہ ۔ اپنے آپ سے نالاں و بیزار ۔

 رنجور اور بے قرار

رنجور اور بے قرار ہوں مگر جانتی ہوں

 کہ میری ذات ہی میں میرا قرار دل و جاں موجود ہے ۔ 

جو اس معمے کو حل کرتا ہے ۔ اس چیستاں میں راستہ بناتا ہے ۔

 اس خلا میں زمان و مکاں ہویدا کرتا ہے ۔

 اس بے معنویت کو کسی معجزے سے معانی عطا کرتا ہے ۔

 میری نگاہوں پر زندگی، روشنی، حرارت اور رنگ ورامش کے

 جہانوں کے در وا کرتا ہے ۔

 میرے دل کو میرے ہونے کا یقین عطا کرتا ہے 

اور میں جی اٹھتی ہوں ۔

اور تو بھی جی اٹھتا ہے ۔ اگر تو بھی ایک فن کار ہے ۔

 پھر ہم اپنے آپ سے کہتے (ہیں ''ہاں یہ فن ہے،

 جس نے ہمیں زندگی، روشنی، اور معانی عطا کیے''۔

تو پھر اہم کون ہوا ،ذات، دنیا یا فن؟

عشق کی ہر کہانی میں سارے سوال ایسی ہی مثلث سے

 جنم لیتے ہیں ۔ 

لیکن میری مثلث ازلی و ابدی ہونے کے باوجود، روایتی نہیں ۔

 کیونکہ میوز، سامر، میں

 ایک ہی وجود میں محو عشق اور معرکہ آرا ہیں ۔

! بس یہی فسانہ ہے عشق آباد کا


ثمینہ راجہ

---------------

2005



1


میوز



بہت سرمئی دھند تھی ۔۔۔ آسماں سے زمیں تک

مرا نرم دل نو دمیدہ تھا

نوزائیدہ تن تھا ۔۔ شیشے کے مانند نازک

ابھی تک بہت خواب دیدہ تھا

اور چشم حیراں ذرا نیم وا تھی

مری نیم وا چشم حیراں نے ۔۔۔ مشرق کی جانب

افق میں سیہ اور شفاف آئینے پر

اپنے طالع کو بیدار ہوتے ہوئے 

پہلی ساعت میں دیکھا

وہ ساعت کہ جس کے اجالے کے نیچے

مری زندگی نے، کنار عدم سے ادھر پاؤں رکھا

مرے جسم نے باغ دنیا میں بہتی ملائم ہوا کا

ذرا نیم شیریں

ذرا نیم سرداب چکھا

مرا نرم دل جو ابھی نو دمیدہ تھا

اس آئنے میں خود اپنا وجود خفی دیکھتا تھا

تو اس ائنے میں جھلکتے ہوئے اس نے دیکھا

مرے ساتھ ۔۔۔۔ اک اور چہرہ

ازل سے ابد کی طرف جاتے حیران رستوں پہ

قرنوں تلک نور ہی نور تھا

رستہء سیم تن کے کناروں پہ رنگیں گلابوں کے

 تختے مہکتے تھے

خوشبو کی بارش فضائے جہاں پر اترتی تھی

حد سماعت سے آگے تلک نقرئی گھنٹیوں کی صدا تھی

مری جاں، شب و روز کے فہم سے ماورا تھی

کوئی چاندنی سا لبادہ پہن کر

میں اپنے بدن کی لطافت میں

جب آسماں سے زمیں کی طرف اٹھ رہی تھی

مرا ہاتھ تھامے ۔۔۔ مرے ساتھ تھے تم

سنہری بدن پر ۔۔۔ مرا تن سنبھالے

گلابی لبوں پر ۔۔۔ مرا لمس اٹھائے

ملائم نظر میں محبت کی رنگین دنیا سجائے

تمہاری چمک دار زلفوں سے

کتنے زمانوں کی تازہ ہوائیں گزرتی تھیں

آنکھوں کی اس نیلمیں تاب میں

سینکڑوں شنگرفی سر زمینیں ۔۔۔ کئی نیلگوں آسماں تھے

زمیں سے فلک تک ۔۔۔ ہزاروں نظارے نمایاں تھے

لیکن مری چشم حیراں میں ۔۔۔ یہ سب تماشا نہیں تھا

فقط تم عیاں تھے

رگ جاں میں بہتے ہوئے سرخ خوں میں رواں تھے

مری روح کے سبز شعلے میں

اونچی ۔۔۔ بہت اونچی اٹھتی ہوئی ایک لو تھی تمہاری

مرے سر کے اطراف میں جس سے نورانی ہالہ بنا تھا 

کہ تم اولیں خواب ہستی کی صورت

خدائے محبت کے مانند

دل میں نہاں تھے



2


سامر



جادو اثر ہے

جو بھی تُو تسبیح پر

پڑھتا ہے

صبح و شام 

میرے سامنے

آنکھوں میں تیری سِحر ہے

آواز میں ہے ساحری

تیرے بدن کے آبنوسی رنگ میں ہے وہ کشش

جو مجھ کو 

پاگل کر گئی

چہرہ ترا ۔۔۔ بچپن سے میرے خواب میں آتا رہا

ماتھے پہ کالی زلف کی یہ اُلجھی لٹ

میرے پریشاں دل سے الجھی ہی رہی

نظروں میں منڈلاتی رہیں

چوڑی بھنویں اور گہری آنکھیں

میرا رستہ روکتی آنکھیں

تری جادو بھری یک ساں نظر سے

خوں کی اک اک بوند ۔۔۔ اک اک سانپ بن کر

اس بدن میں

سرسراتی ۔۔۔ رینگتی ۔۔۔ چلتی رہی

اُن سانولے ہونٹوں پہ گہری پیاس کا اَن مِٹ نشاں

میرے لبوں پر ۔۔۔ پیاس کا صحرا جگاتا

ریت پر کوئی بگولہ بن کے لہراتا رہا

جادو اثر ہے وِرد تیرا

ایسا لگتا ہے کہ ان ہونٹوں کی ہر جنبش

مرے دل میں تمنّا کا الاؤ سا جلاتی ہے

مرے تن پر اشارے سے ۔۔۔ کوئی لیلٰی بناتی ہے

مجھے اپنی طرف ہر پَل بلاتا ہے

تری آواز کا افسوں

مرا مجنوں

ہمیشہ ، رستہ ء دوراں کے کالے موڑ پر بیٹھا ہے

ممنوعہ شجر کے سائے میں

ہر دم ۔۔۔ سُلگتی خواہشوں کی

کوئی دُھونی سی رمائے

اپنی پیشانی پہ ۔۔۔ دنیا رنگ کا 

قشقہ لگائے

سِحر ہے اواز میں

تسبیح تیرے ہاتھ میں

اک جان لیوا وِرد ہے تیرے لبوں پر

ہجر کا اک دشت ہے میرے بدن میں

سنسناتی پیاس ہے میرے لبوں پر



3


ہوا ئے خواب اڑالے گئ کسی جانب




ہوا کے دوش پہ کوئ نگر بسا ہوا ہے

کہ بادلوں میں کہیں کوئ گھر بسا ہوا ھے

عجیب راستہ ہے دھند لکے میں چلتا ہوا

چلا ہی جاتا ہے ہر دل ادھر مچلتا ہوا

نشانیاں سی افق پر عیاں نظر آئیں

کلس دکھائ دیے، برجیاں نظر آئیں

پھر ایک شہر کھلا ایسے چشم حیراں پر

کہ جیسے وہم سا پھیلا ہوا نمایاں پر


زمین سرخ پہ صد رنگ گل مہکتے ہوئے

فضائے سبز میں تارے کئی چمکتے ہوئے

عجیب سحر ہے جس سے مہک رہی ہے ہوا

یہ کیسا نشہ ہے جس سے بہک رہی ہے ہوا

ہیں ہوش مند کہ بے ہوش ہیں یہاں کے مکیں

پیے بغیر ہی مد ہوش ہیں یہاں کے مکیں


سبھی ہیں نام لبوں پر کوئ سجائے ہوئے

سبھی ہیں سینے سے تصویر اک لگائے ہوئے

کوئ خلاؤں میں تکتا گزرتا جاتا ہے

کوئ خموشی سے اک آہ بھرتا جاتا ہے

کہیں کسی سے الجھ کر گرا کوئ شاید

کسی کے پاؤں میں کانٹا چبھا کوئ شاید


سب ایسے ٹوٹ کے بکھرا کوئ گماں جیسے

بنا ہو تاش کے پتوں کا اک مکاں جیسے

نظر کے سامنے اک دشت زرد پھیلا ہوا

جو دل ٹٹول کے دیکھا تو درد پھیلا ہوا

ہوا کے دوش پہ جیسے نگر بسا ہی نہ تھا

کہ بادلوں میں کہیں ایک گھر بسا ہی نہ تھا


خبر نہیں کہ نظارے وہ کس طرح دیکھے

وہ دھوپ اور ستارے وہ کس طرح دیکھے

ہوائے خواب اڑا لے گئ کسی جانب

کہ موج درد بہا لے گئ کسی جانب



4



آئنہ آئنہ ہے تنہائی



(1)

آئنہ ڈھونڈتی ہے تنہائی

ایسا لگتا ہے کہ اک مدت سے

اپنا چہرہ ہی نہیں دیکھا ہے

ماند پڑتی ہوئی ۔۔۔ آنکھوں کی چمک دیکھی نہیں

لب و رخسار کی افسردہ جھلک دیکھی نہیں

اپنی بے رنگی ِ ملبوس سے ہے نا واقف

اپنا کھویا ہوا بے نام سراپا ہی نہیں دیکھا ہے

آئنہ ڈھونڈتی ہے تنہائی

دیکھنا چاہتی ہے عارض و چشم و لب کو

دیکھنا چاہتی ہے اپنا ہی بے نام سراپا شاید

ماند پڑتی ہوئی آنکھوں میں کسی اور کا شعلہ ۔۔۔ شاید

کانپتے ہونٹوں پہ اک نام کا کھلتا ہوا پھول

زرد رخساروں پہ اک لمس ِ خفی کی سرخی

سانس کے ساتھ کسی اور کی سانسوں کی تپش

دیکھنا چاہتی ہے کو ئی شناسا شاید


(2)


آئنہ دیکھتی ہے تنہائی

اتنی مصروف تھی ہنگامہء روز وشب میں

اپنا تن ۔۔۔ اپنا سراپا ہی نہیں دیکھا تھا

غیرتوغیر ۔۔۔ شناسا ہی نہیں دیکھا تھا

آنکھ میں رنگ ِ جنوں 

دل میں کوئی عشق کا سَودا ہی نہیں دیکھا تھا


اب جو دیکھا تو عجب صورت ِ احوال نظر آئی ہے

غیر کا عکس ۔۔۔ نہ دلدار سراپا کوئی

نہ کوئی دوست، نہ غم خوار، نہ اپنا کوئی

۔۔۔۔۔۔۔ آنکھ میں وحشت ِ دل

دل میں لیے عشق کا سودا کوئی ۔۔۔۔۔۔

آئنہ آئنہ ۔۔۔۔ تنہائی ہے 

تنہائی ہے



5



قصر کا در باغ کے اندر کھلا

پھر طلسم ِ شوق کا منظر کھلا


نیند میں کھویا ہوا تھا ایک شہر

روشنی میں خواب سے باہر کھلا


دھوپ تھی اور دن کا لمبا دشت تھا

رات کو باغ ِ مہ و اختر کھلا


اب تلک بے جسم تھا میرا وجود

یہ تو اس کے جسم کو چھو کر کھلا


اک جزیرے سے ہوا لائی پیام

بادباں لہرا گئے، لنگر کھلا


ڈوبنے سے ایک لمحہ پیشتر

ساحل ِسر سبز کا منظر کھلا


ایک قسمت، شمع، پروانے کی ہے

راز یہ اس شعلے کی زد پر کھلا


وہ محبت تھی ردائے مفلسی

پاؤں کو ڈھانپا تو میرا سر کھلا


پھر ستارہ وار اس کو دیکھنا

طائر ِ بستہ کا جونہی پر کھلا


آخر ِ شب تک مسافر کے لیے

ہم نے رکھا دل کا اک اک در کھلا


زندگی فانوس و گلداں ہو گئی

اس طرح اک دن وہ شیشہ گر کھلا



6


محبت اور نفرت ایک ہی سکےّ کے دو رُخ ہیں




مری آنکھوں کی نیلی پتلیوں پر جو سنہری دھند چھائی ہے

محبت ہے

مگر اس دھند کے بادل سے آگے

خوف کے سنسان رستے کی بہت لمبی حدوں کے پار

اک تاریک و وحشت ناک جنگل ہے

جہاں ہر شاخ پر اک بوم بیٹھا ہے

جہاں سب جھاڑیوں میں بھیڑیے دبکے ہیں 

ساری بانبیوں میں سانپ رہتے ہیں


ہوا کی نا ملائم سرسراہٹ نے بھلا دھیرے سے تجھ سے کیا کہا

جو کچھ کہا ۔۔۔ سب جھوٹ ہے

تیرے وفا نا آشنا کانوں نے 

جو کچھ بھی سنا ۔۔۔ سب جھوٹ ہے

یہ آرزو ۔۔۔ یہ جستجو ۔۔۔ حرف ِ وفا ۔۔۔ سب جھوٹ ہے

یہ زندگی ۔۔۔ اس کا حسیں چہرہ

یہ خد و خال ۔۔۔ یہ نازو ادا ۔۔۔ سب جھوٹ ہے


ہاں سچ تو یہ ہے ۔۔۔ اج تیری چشم ِحیراں کے نظارے کو

وہاں میدان میں اک جشن ِ رنگ و نور برپا ہے

ذرا تو یاد تو کر۔۔۔ مدتوں پہلے ۔۔۔ کوئی جادو بھری اک رات تھی

اور زندگی کے سبز میداں میں ۔۔۔ اک ایسا ہی 

سنہرا جشن برپا تھا

جوانی کی سلگتی، تلملاتی خواہشوں سے

عشق کی شدت سے گھبرا کر

شبستان ِمحبت سے تجھے میں نے پکارا تھا

اجالوں سے ذرا دوری پہ

گہرے سرخ پھولوں سے بھرے اُس کنج میں

اک دلربا ، گل رنگ بوسہ ۔۔۔ تیرے ہونٹوں پر رکھا تھا

یاد کر ۔۔۔ تو کس قدر وحشت سے یوں پیچھے ہٹا

جیسے ترے ہونٹوں سے کوئی سانپ یا بچھو ۔۔۔ چھوا ہو

میرے دل پر آج بھی چسپاں ہے ۔۔۔ وہ دہکا ہوا لمحہ


محبت اور نفرت

ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں

تری حیران آنکھوں کے مقابل

آج بھی اک جشن ِرنگ و نور برپا ہے

ترے پندار کی پہلی ہزیمت کا

جہاں میں آج

اپنے حسن کی طاقت کا نظارہ کروں گی


زندگی کے خواب آسا لب سے ٹپکا

سرخ بوسہ ۔۔۔ تو نے ٹھکرایا تھا

اب میں بر سرِ دربار

خوں آشام کالی موت کا بوسہ

ترے ہونٹوں پہ رکھوں گی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور ہیرودیاس کی بیٹی اندر آئی اور اس نے ناچ کر بادشاہ اور اس کے مہمانوں کو خوش کیا تو بادشاہ نے اس لڑکی سے کہا
 : جو چاہے مجھ سے مانگ، میں تجھے دوں گا“ ۔۔۔ اس نے کہا
 یوحنا، بپتسمہ دینے والے کا سر

(مرقس 29-16)



7



چراغ ِ عشق تو جانے کہاں رکھا ہوا ہے

سر ِمحراب ِ جاں بس اک گماں رکھا ہوا ہے


ہوائے شام اڑتی جا رہی ہے راستوں پر

ستارہ ایک زیر ِآسماں رکھا ہوا ہے


یہی غم تھا کہ جس کی دھوم دنیا میں مچی تھی

یہی غم ہے کہ جس کو بے نشاں رکھا ہوا ہے


ہٹے، تو ایک لمحے میں بہم ہو جائیں دونوں

گلہ ایسا دِلوں کے درمیاں رکھا ہوا ہے


تری نظریں، تری آواز، تیری مسکراہٹ

سفر میں کیسا کیسا سائباں رکھا ہوا ہے


لرزتا ہے بدن اس تند خواہش کے اثر سے

کہ اک تنکا سر ِآبِ رواں رکھا ہوا ہے


مُصر ہے جس کو میرا باغباں ہی کاٹنے پر

اک ایسی شاخ پر یہ آشیاں رکھا ہوا ہے


کہیں کوئی ہے انبارِ جہاں سر پر اٹھائے

کہیں، پاؤں تلے سارا جہاں رکھا ہوا ہے


الاؤ جل رہا ہے مدتوں سے داستاں میں

اور اس کے گرد کوئی کارواں رکھا ہوا ہے


رکی جاتی ہے ہر گردش زمین و آسماں کی

مرے دل پر وہ دست ِمہرباں رکھا ہوا ہے



8


کسک بن کے رہوں



خواب میں دیکھے ہوئے منظر ِحیرانی کی

عشق میں بیتی ہوئی پہلی پریشانی کی

عرصہء جاں میں کسی گوشہء ویرانی کی

یاد بن جاؤں 

جھلک بن کے رہوں


جس طرح گلشن ِ ہستی میں کوئی موج ِ ہوا ہوتی ہے

جیسے جتلائی نہیں جاتی مگر رسم ِ وفا ۔۔۔ ہوتی ہے

جیسے وہ جانتا ہے ۔۔۔ جس پہ گزرتا ہے فراق

پھانس، ٹوٹی ہوئی امید کی کیا ہوتی ہے

جس طرح لمحہء کمزور میں گر جائے کوئی غم

لب ِ بے قابو سے

جس طرح ہوتی ہوئی فتح بنے

بس یونہی پل بھر میں شکست

جیسے عمروں کا بھرم ہوتا ہو اک آن میں ریزہ ریزہ

چشم ِ مجبور کے اک آنسو سے

جس طرح اٹھ کے اچانک ہی چلا جائے کوئی پہلو سے

جیسے بچھڑے کوئی جلوت کا شناسا

کوئی خلوت کا رفیق

دور ہو جوئے کوئی جسم کا ساتھی 

کوئی راتوں کا شریک

جیسے غم خوار ِ محبت ہی بنے 

لطف ِ محبت میں فریق

یوں لہو کو ترے شعلاؤں

تپک بن کے رہوں

میں ترے دل میں ۔۔۔ ہمیشہ کی 

کسک بن کے رہوں



9



ہم تو بس اک موجہء خوشبو سے بہلائے گئے

اور تھے وہ پھول جن کو رنگ پہنائے گئے


پھر ہوائیں کچھ عجب سرگوشیاں کرنے لگیں

اس سے پہلے دل کو چھو کر شام کے سائے گئے


اس خیال ِ جانفزا سے آشنائی جب ہوئی

پھر کبھی ہم اپنی قربت میں نہیں پائے گئے


دیر تک الجھے ہوئے بالوں میں دل الجھا رہا

پیش ِآئینہ بہت سے ہجر دہرائے گئے


کس طرح کی بستیاں تھیں راہ کے دونوں طرف

کون تھے وہ لوگ جو اس راہ پر آئے، گئے


شہر سے سارے پرندے کر گئے ہجرت اگر

پھر بھلا کیوں موسموں کے جال پھیلائے گئے


کس ستارے سے اتر کر آ رہی ہے یہ مہک

کس زمیں سے اس زمیں پر پھول برسائے گئے


ایک چٹکی سرخ سے گلنار ہے سارا افق

ایک مٹھی سبز سے ،بن سارے سبزائے گئے


جگمگا اٹھے تھے سب ہی دیوتاؤں کی طرح

جب یہ پتھر چاند کی کرنوں سے نہلائے گئے


جانتے ہیں خوب اُس مہماں سرائے دل کو ہم

ہاں کبھی ہم بھی وہاں کچھ روز ٹھہرائے گئے


تھا یہی عشق وغم ِدل کا فسانہ ، گر کبھی

دور افتادہ زمانوں کے سخن لائے گئے



10


اگر مل سکو ۔۔۔۔ تو



زمانوں سے کھوئی ہوئی ہجر کی منزلوں میں

مری زندگی کے پریشاں نظر راستوں میں

کہیں ایک پل کو ملو ۔ ۔ ۔ تو

مجھے تم سے یہ پوچھنا ہے

کہ دریاؤں کا رخ بدلتے سنا تھا

سمندر نے رستے بدلنا بھلا کب سے سیکھا؟

ہواؤں کے پیچاک میں

پربتوں نے الجھنا بھلا کب سے سیکھا؟

زمین اور زہرہ، عطارد، زحل، مشتری اور مریخ

سورج کے محور پہ چلتے ہیں

چلتے رہیں گے ۔ ۔ ۔ مگر

کوئی سورج بھی گدلی زمینوں کے 

ٹوٹے ہوئے سرد ٹکڑوں کے محور پہ چلتا ہے

یہ سانحہ ۔۔۔ کائناتوں کی تقویم میں کب لکھا ہے؟

یہی واقعہ ہے

ہوا نے، فضا نے، زمانے نے، دنیا کے ہر تجربے نے بتایا

غلط ہے، عبث ہے، خطا ہے''

یہ خوش فہم نظروں کا دھوکا

تمنائے دل کا فریب اور پیاسے بدن کی صدا ہے

مگر کس نے سمجھا ۔۔۔ مگر کس نے مانا ؟

ازل سے یہی تو ہوا ہے

ابد تک یہی ہونے والا ہے

رستہ ہی منزل ہے

منزل بھی دراصل اک راستہ ہے

سو غم ہی خوشی ہے

خوشی میں بھی غم ہی چھپا ہے

”سفر ہے ۔۔۔ سفر ہے ۔۔۔ سفر ہے“

ازل سے ابد تک ۔۔۔ فنا سے بقا تک

مسافت میں مصروف ارض و سما نے

ستاروں نے، مہتاب نے

گرم پانی نے ۔۔۔ ٹھنڈی ہوا نے، بتایا

مگر دل ۔۔۔ جو کیوپڈ کے تیروں سے چھلنی تھے

مد ہوش تھے ۔۔۔ ان کو کب ہوش آیا؟

اگر ہوش آیا ۔۔۔ کسی رہگزر میں

تو امید اور نا امیدی کے لمبے سفر میں

ہواؤں کے اور پانیوں کے بھنور میں

بس اک پل رکے

میں سر کو اناؤں سے

پاؤں کو دنیا کے چکر سے آزاد کرنے کی خواہش میں

۔۔۔۔ پلکیں اٹھائی تھیں

غرقاب ہوتے ہوئے ۔۔۔۔


پیار ہے؟“ میں نے پوچھا تھا ''

نہ“ تم نے نفی میں سر کو ہلا کر ''

کسی ڈوبتے آدمی کی طرح سانس لیتے ہوئے 

بے بسی سے کہا تھا ”نہیں ۔۔۔ عشق ہے ۔۔۔ عشق


کیا عشق کو بھی فنا ہے؟

مجھے بس یہی پوچھنا ہے

اگر ایک پل کو کہیں مل سکو ۔۔۔ تو



11



دو نیم



ہمیشہ آنکھ لگتے ہی قدم اک خواب میں رکھا


وہ گہرے راز جیسا خواب، جس میں گھپ اندھیرا تھا

کہیں پر زرد رُو شب تھی ۔۔۔ کہیں کالا سویرا تھا

عجب پُر پیچ ، لمبے راستے پھیلے ہوئے ہر سُو

نگر سویا ہوا ۔۔۔ جیسے کسی نے کر دیا جادو

جہاں پاؤں سے پاؤں جوڑ کر تنہائی چلتی تھی

دھواں اٹھتا تھا باغوں سے، ہوا میں آگ جلتی تھی

کہیں تھےآشنا سے خال و خد، انجان چہروں پر

چمکتی جاگتی آنکھیں کہیں، بے جان چہروں پر

مناظر۔۔ وحشتوں، ویرانیوں، اجڑے مکانوں کے

سفر۔۔ دریاؤں کے، صحراؤں کے، گزرے زمانوں کے

ہمیشہ آنکھ لگتے ہی ۔۔۔ پریشانی نئی دیکھی

چھڑایا زندگی سے ہاتھ، پھر بھی زندگی دیکھی


کبھی گہری رسیلی نیند کا امرت نہیں چکھا



12



ماؤں کا المیّہ



جواں ہوتے مغرور بچوں کی ماؤں کا

۔۔۔۔۔۔۔ کیسا عجب مسئلہ ہے

انہیں زندگی میں، نئی زندگی کی تمنا ہے


آئنہ دیکھیں تو اس میں کسی اور کا

خوب صورت نویلا بدن

آنکھ میں جاگتی اک کرن

شوق کا اجنبی بانکپن ۔۔۔ دیکھ سکتی ہیں

آنکھوں میں خوابوں کا کاجل لگاتی ہیں

ہونٹوں کی معصوم سرخی چھپاتی ہیں

اور مسکراتی ہیں

اور مسکراتی ہیں ۔۔۔ اپنے بدن میں

دھڑکتے ہوئے دل کی موجودگی پر

بدن ۔۔۔ جس پہ دیوار و در کا

سلیقے سے بستے ہوئے پورے گھر کا

اور ایک ایک لخت ِ جگر کا

بہت رنگ گہرا ہے

عزت، تقدس کا ہر سانس پر سخت پہرا ہے

دل ۔۔ جس کو گھر اور گرہستی کے نیچے دبے

بے بدن جیسے، ٹھنڈے بدن سے نکل کر

کسی دھوپ کے سرخ میں ۔۔۔

خوں نہانے کی خواہش ہے

خوابوں کی اک رنگنائے میں 

۔۔۔ غوطہ لگانے کی خواہش ہے

نیلی فضا میں، بہت دور جانے کی خواہش ہے

اک دودھیا پر ۔۔۔ پرندے کو بانہوں میں لینے کی

افلاک میں اک گلابی ستارے کو چھونے کی

ماہِ منور کو پانے کی خواہش ہے

دل ۔۔۔ جس کو عزت کی چادر میں لپٹے ہوئے

سرد پڑتے ہوئے اور ڈھلکتے ہوئے ۔۔۔ ماس کو

پھر دہکتا ہوا، تن بنانے کی خواہش ہے

گلزار ِ ہستی میں

موجودگی کا کوئی گُل کھلانے کی 

شب کے دھڑکتے اندھیرے میں ۔۔ سیجیں سجانے کی

دنیا کی نظروں سے چھپ کر

۔۔۔۔ سراندیپ دنیا، بسانے کی خواہش ہے

اس دل کے ہونے پہ ۔۔۔ حیران ہوتی ہیں

اپنے جواں ہوتے مغرور بچوں کی ۔۔۔ معصوم مائیں

کبھی مسکراتی ہیں

پھر اپنی اس مسکراہٹ پہ روتی ہیں


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

''سراندیپ'' serendipitous



13



کچھ ایسے گزرے ہیں عشق کے امتحان سے ہم

نکل کر آئے ہوں جیسے اک داستان سے ہم


قبول کر تو لیے تھا سادہ دلی میں ہم نے

مگر نہ بہلیں گے عمر بھر تیرے دھیان سے ہم


کبھی حیا ہے، کبھی انا ہے طلب میں حائل

وجود اپنا ہٹائیں گے درمیان سے ہم


رہیں گے سچائی کے سپید و سیہ میں کیسے

گزر کر آئے ہیں رنگنائے گمان سے ہم


کوئی بلاتا ہے نوری صدیوں کے فاصلوں سے

کبھی تو آزاد ہوں گے اس خاکدان سے ہم


گلاب کی شاخ سے نہیں کیکٹس نکلتے

تو غم اٹھاتے ہیں کس لیے تیرے دھیان سے ہم


پڑا ہے فٹ پاتھ پر ہوا کا قدیم جھونکا

چلے ہیں منزل کو یاد کے اس نشان سے ہم


سرکتی جاتی ہو دل سے کوئی چٹان جیسے

ہٹا رہے ہیں کسی کا غم ، جسم و جان سے ہم


نجانے کب اگلا پاؤں ہم ان کے پار رکھ دیں

گزر رہے ہیں ابھی زمان و مکان سے ہم


کچھ اس طرح سر کشیدہ رہتے ہیں فکرِ فن میں

کلام کرتے ہوں جس طرح آسمان سے ہم



14



عشقین



مرے محبوب

مجھ کو تیرے دشمن سے محبت ہے

مجھے معلوم ہے یہ اعترافِ جاں گسل سن کر

تری غیرت کے دریا میں بہت طوفان اٹھے گا

تری رگ رگ میں بہتے خوں میں 

وحشت سے ابال آنے لگے گا

اور ترے اندر جو خوابیدہ ہے صدیوں سے

وہ وحشی، ابتدائی اور قدیمی مرد

اک جھٹکے سے جاگے گا

تڑپ اٹھے گا اور اپنی نیام ِجاں سے ۔۔۔ نفرت کی 

کوئی متروکہ تیغ ۔تیز کھینچے گا

کہ اک ہی وار میں یہ بے وفا سر

بے حیا تن سے جدا کر دے


مجھے یہ علم کب تھا

زندگی کے خوب صورت راستے میں

اس طرح نا آشنا ۔۔۔ نا مہرباں اک موڑ آئے گا

دل وجاں سے میں تیری تھی

تری آنکھوں، تری بانہوں، ترے دل میں

بہت ہی عافیت میں جان میری تھی

سنہرے جسم سے تیرے ۔۔۔ مجھے بھی والہانہ عشق تھا

چاہت بھری باتوں میں تیری لذتِ آسودگی تھی

جسم و جاں کی پوری سچائی سے لگتا تھا

مری دنیا مکمل ہے


اچانک ایک شب

اک محفل ِرنگیں میں میرا سامنا اُس ہوا

اس دشمن ِجانی سے تیرے

اب جو میرا دشمن ِجاں ہے ۔۔۔ 

مگر کچھ پیشتر، میں اک طرف بیٹھی تھی اپنے دھیان میں

اک لمپ کی کم روشنی میں ۔۔۔ گوشہء خاموش و بے امکان میں

جب اپنے چہرے پر ان آنکھوں کی تپش محسوس کر کے

میں نے اس کی سمت دیکھا تھا

وہ لمحہ ۔۔۔ آہ وہ لمحہ

وہ میری زنگی کا دلنشیں اور بد تریں لمحہ

کہ جب میری نظر اس کی سیہ آنکھوں سے لپٹی

سانولے چہرے سے ٹکراتی ہوئی

پیاسے لبوں پر جا رکی

لیکن اسی لمحے میں میری روح کھنچ کر آ گئی تھی

میری آنکھوں میں

نجانے کتنی صدیوں سے 

مری جاں کے نہاں خانوں میں پوشیدہ تھی ایسی تشنگی

میں جس سے یکسر بے خبر تھی

وائے قسمت ۔۔۔ اس بھری محفل میں، میں نے

اپنے تن کی تشنگی کا ۔۔۔ اپنے دل کی ایسی تنہائی کا نظارہ کیا

وہ دل ۔۔۔ جو اب تک تیری الفت میں دھڑکتا تھا

ترے دشمن کے تیرِ عشق سے گھائل پڑا تھا



جانتی ہوں

یہ کہانی سن کے تیرے دل پہ کس درجہ قیامت ٹوٹتی ہے

تیری نس نس میں کئی چنگاریاں بھرنے لگی ہیں

انتقام ۔۔۔ اک سانپ بن کر تیرے خوں میں ناگتا ہے

پر نئی تہذیب سے روشن تری آنکھیں ۔۔۔ بہت خاموش ہیں

چہرہ بہت ہی پر سکوں ہے

ذہن ۔۔۔ جو گزری ہوئی ان بیس صدیوں کے کئی دانش کدوں

اور تربیت گاہوں سے چَھنتے نور سے معمور ہے

تجھ کو کسی بھی انتہائی فیصلے سے روکتا ہے


انتہائی فیصلے سے روکتی ہے

میری عقل ِناتواں مجھ کو

دل ِوحشی مگر رکتا نہیں ۔۔۔ یہ کیا قیامت ہے

مرے محبوب

اس کو تیرے دشمن سے محبت ہے



15


کیا مرے خواب مرے ساتھ ہی مر جائیں گے



ساز خاموش کو چھوتی ہے ـــــــ ذرا آہستہ


ایک امید ـــــ کسی زخمہء جاں کی صورت


لب پر آتے ہیں دل و ذہن سے الجھے یہ سوال


کسی اندیشے کے مانند ــــ گماں کی صورت




ذہن کے گوشہء کم فہم میں سویا ہوا علم


جاگتی آنکھ کی پتلی پہ ــــــ نہیں اترے گا


ڈوب جائے گا اندھیرے میں وہ نادیدہ خیال


جو چمکتاـــــــ تو کسی دل میں اجالا کرتا




جسم پر نشّے کے مانند ـــــــــ تصوّر کوئی


دل میں تصویر مجسّم کی طرح کوئی وصال


دفن ہو جائے گا اک ٹھہرے ہوئے پانی میں


میری آنکھوں کی طرح عشق کا یہ ماہ جمال




ایک ہی پل میں بکھر جائے گا شیرازہء جاں


ایک ھی آن میں کھو جائے گی لے ہستی کی


عمر پر پھیلی ــــــ بھلے وقت کی امید جو ہے


ایک جھٹکے سے یہ دھاگے کی طرح ٹوٹے گی




کیا بکھر جائیں گے ـــــ نظمائے ہوئے یہ کاغذ


یا کسی دست ملائم سے ـــــــ سنور جائیں گے


کیا ٹھہر جائیں گے اس لوح پہ سب حرف مرے


یا مرے ساتھ ــــــــ زمانے سے گزر جائیں گے




میری آواز کی لہروں سے، یہ بنتے ہوئے نقش



کیا ہوا کی کسی جنبش سے، بکھر جائیں گے


زندہ رہ جائیں گے ـــــــــ تعبیر محبت بن کر


یا مرے خواب، مرے ساتھ ہی مر جائیں گے؟