ثمینہ راجہ

 

زندگی کے سفر کے دوران، بہت سی خواہشیں اور آرزوئیں

پچھلی منزلوں پر رہ جاتی ہیں یا کھو جاتی ہیں ۔

افسوس، زندگی کا راستہ ہمیشہ عمودی ہوتا ہے ۔


اگر یہ دائرے میں سفر کرتی تو شاید کبھی نہ کبھی

 
کوئی نہ کوئی

اپنی کسی گمشدہ خواہش یا بھولی بسری آرزو کو
 
پانے میں کامیاب ہو جاتا ۔
 
تب شاید عمر کی رائگانی کا اتنا ملال نہ ہوتا ۔


شاید پھر پلٹ کر دیکھنے کی مناہی نہ ہوتی 

 
اور شاید 
 پلٹ
  کر دیکھنے پر لوگ پتھر نہ ہوتے ۔

لیکن اب تو قانون بھی موجود ہے


 اور مجھے سزا کا بخوبی اندازہ بھی ہے
 


مگر شاعری


جو میری شریانوں میں سنسناتی ہے ۔ میرے دل میں دھڑکتی ہے ۔

مسکراتی ہے اور میرے کانون میں مسلسل سرگوشیاں کرتی ہے ۔

کہ آرزو کا پھول جو میرے ہاتھ سے چھوٹ کر
 
ایک جلتے ہوئے راستے پر گر گیا تھا

مجے واپس جا کر مرجھانے سے پہلے اسے اٹھانا ہے ۔

کہ برسوں پہلے پتھر پر جو ایک فیصلہ لکھا گیا تھا

مجھے اس کو منسوخ کرنا ہے ۔

کہ میری پشت پر محض چند قدم کی دوری پر تقدیر خندہ زن ہے ۔

مجھے ایک بار پلٹ کر اس پر ہنسنا ہے ۔

کہ مجھے سنگ زاد ہونے سے پہلے

ایک جراتِ باز دید کرنی ہے





ثمینہ راجہ

------------

2000




 

1


دن تری یاد سے آغاز کِیا





آبِ حیراں پہ ترے حسن کی ضَو

پردہء خاک میں تیرا ہی طلسم

تیرے ہی اسم نے افلاک تلک

پیکر ِ گِل کو سرافراز کِیا



مِہر کے رنگ سے لوَح ِ دل پر

ایک ہی حرف رقم ہوتا رہا

اور اس حرف سے نسبت پہ مرے

خامہء شاعری نے ناز کِیا



چشم، اسَرار کی جویا میری

دل ہے اک عمر سے شب زندہ دار

دل، غم ِ دل کا سبب پوچھتا تھا

تو نے افشا جو کوئی راز کِیا



اب تو اچھی نہیں لگتی دنیا

عشق نے اپنے معانی بدلے

شب ترے ہجر سے منسوب ہوئی

دن تری یاد سے آغاز کِیا




 

2


باز دید






تنہائی کے ایک زرد بن سے

اب زندگی گرچہ آ گئی تھی

امکان کے سبز راستے پر


یہ راہ کے جس کے دونوں جانب

مہکے ہوئے پھول راحتوں کے

اور حدِ نظر تلک تھے بکھرے

سب رنگ، نویلی چاہتوں کے


اب دل میں نہیں تھا ہَول کوئی

اور آنکھ میں گھُل رہی تھی جیسے

فردا کی سپید روشنی سی

جو نرم ہَوا ابھی چلی تھی

وہ ایک عجیب سرخوشی سے

اِس تن سے لپٹ لپٹ گئی تھی



لیکن یہ ہَوا کی زلف میں ہے

کن زرد اداسیوں کی خوشبو

لگتا ہے کہ جیسے پیشتر بھی

اِس دل پہ چلا ہے اس کا جادو


مانوس ہے یا کہ اجنبی ہے

بس اپنی طرف کو کھینچتی ہے

اب پاؤں کہاں بڑھیں گے آگے

جب زندگی خود ہی کہہ رہی ہے


'جنگل میں یہ کیسا گلُ کِھلا ہے'

جنگل کو پلٹ کے دیکھنا ہے





 

3


محبت زندگی سے بھی ضروری تھی






کہاں ہوں میں؟ ۔۔۔ کہاں ہے تو؟

زمانوں سے مجھے اک جستجو

دل بے نیاز ِ ہا و ہو

تو ماورائے رنگ و بو ۔۔۔۔


شام ِ سفر ۔۔۔ امید ہی رہوار ہے میرا

ستارہ شام کا، حد ِ نظر سے بھی کچھ آگے اُڑتا جاتا ہے

ہوائیں میرا پیچھا کر رہی ہیں

زندگی کو راستے کے موڑ پر رکھ کر

میں شاید بھول آئی ہوں ۔۔۔۔



کہاں ہے تو؟

کہاں ہے تو ۔۔۔ زمیں کا رنگ پھیکا پڑ گیا ہے

دھوپ ڈھلنے سے بھی کچھ پہلے

اندھیرا، منظروں پر پھیلتا ہے

آسماں، اپنے کناروں سے نکل کر بہہ رہا ہے

لوگ، یادوں سے بھی پیچھے رہ گئے ہیں

راستے پر رات کی آہٹ



کہاں ہوں میں؟

کہاں ہوں میں کہ سارے لوگ

یادوں سے بھی پیچھے رہ گئے ہیں

لوگ ۔۔۔ سارے لوگ

سارے ۔۔۔ درد میں بھیگے ہوئے اور آس میں لتھڑے ہوئے

سب ۔۔۔ زندگی کو اپنے اپنے ٹوٹتے کاندھوں پہ لادے

منزلوں پیچھے رُکے ہوں گے

رُکے ہوں گے ۔۔۔ پلٹ کر جا چھکے ہوں گے ۔۔۔

خدا جانے



کہاں ہے دل؟

کہاں ہے دل ۔۔۔ نہیں تھا ۔۔۔۔

ہاں مگر میں نے یہ سمجھا تھا

کہ میری جستجو کے ساتھ ہے

سارے جہاں کے رنگ و بو کے ساتھ ہے

اور زندگی کی آرزو کے ساتھ ہے

گرچہ محبت ۔۔۔۔ زندگی سے بھی ضروری تھی

مگر اب تو بہت ہلکی ۔۔۔ کسک سی ہے




 

4


آشوب






کیا آہ بھرے کوئ

جب آہ نہیں جاتی

دل سے بھی ذرا گہری

اور عرش سے کچھ اونچی



کیا نظم لکھے کوئ

جب خواب کی قیمت میں

آدرش کی صورت میں

کشکول گدائ کا

شاعر کو دیا جائے

اور روک لیا جاۓ

جب شعر اترنے سے

بادل سے ذرا اوپر

تاروں سے ذرا نیچے



کیا خاک لکھے کوئ

جب خاک کے میداں پر

انگلی کو ہلانے سے

طوفان نہیں اٹھتا

جب شاخ پہ امکاں کی

اس دشت تمنا میں

اک پھول نہیں کھلتا


رہوار نہیں رکتے

موہوم سی منزل پر

آنکھوں کے اشارے سے

اور نور کی بوندوں کی

بوچھاڑ نہیں ہوتی

اک نیلے ستارے سے



جب دل کے بلاوے پر

اس جھیل کنارے پر

 پیغام نہیں آتا

اک دور کا باشندہ

اک خواب کا شہزادہ

گلفام، نہیں آتا


بستی میں کوئ عورت

راتوں کو نہیں سوتی

جاگی ہوئ عورت کی

سوئ ہوئ قسمت پر

جب کوئ بھی دیوانہ

بے چین نہیں ہوتا

دہلیز کے پتھر سے

ٹکرا کے جبیں اپنی

اک شخص نہیں روتا



جب نیند کے شیدائ

خوابوں کو ترستے ہیں

اور دیکھنے کے عادی

بینائ سے ڈرتے ہیں

رہ رہ کے اندھیرے سے

آنکھوں میں اترتے ہیں



آنکھوں کے اجالوں سے

ان پھول سے بچوں سے

کہہ دو کہ نہ اب ننگے

پاؤں سے چلیں گھر میں

اس فرش پہ مٹی کے

اب گھاس نہیں اگتی

اب سانپ نکلتے ہیں

دیوار سے اور در سے



اب نور کی بوندوں سے

مہکی ہوئ مٹی میں

انمول اجالے کے

وہ پھول نہیں کھلتے

اب جھیل کنارے پر

بچھڑے بھی نہیں ملتے

بستی میں کوئ عورت

راتوں کو نہیں سوتی

اور جاگنے والوں سے

اب نظم نہیں ہوتی



کیا نظم لکھے کوئ

جب جاگنے سونے میں

پا لینے میں، کھونے میں

جب بات کے ہونے میں

اور بات نہ ہونے میں

کچھ فرق نہ رہ جاۓ

کیا بات کرے کوئ 





5


مری خواب گاہ میں






مجھے وہم تھا

مری خواب گاہ میں کوئی شے ہے چھپی ہوئی

کوئی سبز، سرخ لکیر سی

جو نظر اٹھاؤں ۔۔۔ تو ایک چیز حقیر سی

جو نظر بچے ۔۔۔ تو عجب طرح سے وہ جی اٹھے

کبھی رینگتی ہوئی فرش کے تن ِزرد پر

کبھی کانپتی ہوئی میرے بستر ِ زرد پر

جو سرہانےآ کے سمٹ گئی

تو وہیں سے نیند اچٹ گئی

کسی شب کو خواب کے پاس سے جو گزر گئی

تو وہاں سے خواب ہی کٹ گیا

کبھی سچ کی طرح مری نگاہ پہ کھل گئی

کبھی واہمہ سا مری نظر سے لپٹ گیا



ابھی پائیدان کے پاس تھی ۔۔۔ ابھی در میں ہے

کبھی خوف سا رگ و پے میں میرے اتر گیا

کبھی سنسنی سی کمر میں ہے

نہ میں جاگ پاؤں ۔۔۔ نہ سو سکوں

اور اسی سیاہ خیال میں

نہ ہنسوں ۔۔۔ نہ کھل کے میں رو سکوں

کہ وہ جھولتی ہوئی جھالروں سے چمٹ کے چھت سے لٹک گئی

کہ وہ چھت سے رینگتی رینگتی ۔ ۔ ۔ ۔ 

جو مرے بدن پہ چھلک گئی؟ 

اسی ڈر سے آنکھ دھڑک گئی



مرے گھر میں کوئی نہ آئے گا

کہ میں ہاتھ تھام کے تختِ جان سے اتر سکوں

مرے دل میں کوئی نہ آئے گا

کہ میں دل کی بات ہی کر سکوں

وہ سکوت ہے

کہ نہ جی سکوں ۔۔۔ نہ میں مر سکوں



کبھی وہم تھا ۔۔۔

مگر اب گماں ہے یقین پر

مری خواب گاہ میں سانپ ہے

میں رکھوں نہ پاؤں زمین پر





 

6


7

 

8


نروان





خدا نے مرے دل پہ جب ہاتھ رکھا ۔۔۔ بتایا

ہر اک چیز غم ہے

حیات ایک نامختتم رنج کا سلسلہ ہے

یہاں خواہش ِزر کا

نام آوری کی تمنا کا حاصل

محبت کا، نفرت کا انجام ۔۔۔ الم ہے



خدا نے مرے دل پہ جب ہاتھ رکھا ۔۔۔ بتایا

ہر اک شے گزر جانے والی ہے

پھل، پھول، سبزہ، سمندر، پہاڑ اور میداں

بہارو خزاں، ابروباراں، زمستاں

ہر اک جاندار اور بے جاں

مکاں، لامکاں ۔۔۔ سب دھواں

سب گماں ہے



خدا نے مرے دل پہ جب ہاتھ رکھا ۔۔۔ بتایا

ہر اک شے عدم ہے

یہ شمس و قمر ۔۔۔ کہکشان و نجوم اور شام وسَحر

اور مہ و سال ۔۔۔ اور وقت

ہر شے کا انجام ۔۔۔ آخر فنا ہے

زمینوں، زمانوں سے آگے خلا ہے

ہر اک چیز زندہ ۔۔۔ مگر ہر قدم ۔۔۔ موت کی ہم قدم ہے



جو ہر شے عدم ہے

تو کس بات کا تجھ کو غم ہے

جو ہر شے گزر جانے والی ہے ۔۔۔ آخر عدم ہے

تو پھر کیسا غم ہے

کہ جینے میں بھی موت دیکھی

جو راحت میں غم کا مزہ تو نے چکھا 



خدا نے یہ پوچھا

جب اس نے مرے آبلے جیسے دُکھتے ہوئے دل پہ

معجز نما ہاتھ رکھا



--------------------------


سروم دکھم ۔۔۔ سروم اتیم ۔۔۔ سروم شنیم ( مہاتما بدھ




 

9


زمیں کیوں بنائی






فلک کیوں بنایا؟

ستاروں سے آگے ستارے بنائے

ستاروں سے پھر کہکشائیں سجائیں

بہت فاصلے ۔۔۔

فاصلوں سے بھی آگے ۔۔۔ بہت فاصلے

چار سمتیں، کبھی چھ، کبھی سات سمتیں بنائیں

کبھی نور سے نور پیدا کیا اور کبھی تیرگی، تیرگی سے

اندھیرے کا آخر اجالا ۔۔۔ اجلاے کا انجام اندھیرا

شہاب اور ثاقب

کہیں آگ ہی آگ ۔۔۔ آگے

کہیں برف ہی برف ۔۔۔ پیچھے

حقیقت میں کوئی نہ آگے ۔۔۔ نہ پیچھے

فقط شعبدے

بس کشش اور ثقل اور ایتھر



چلو یہ اگر بن گیا تھا ۔۔۔ بہت تھا

زمیں کیوں بنائی؟

فضائیں، ہوائیں بنائیں

پہاڑ اور سمندر بنائے

یہ پھل پھول اور کھیتیاں اور جنگل

ہزاروں طرح کے پرندے

کروڑوں طرح کے جناور

یہ پانی میں چھوٹی بڑی مچھلیاں

تاکہ چھوٹی کو کھائے بڑی

اور طاقت میں کم کو زیادہ



زمیں پر یہ انساں

یہ حیوان ِ ناطق ۔۔۔ درندوں کا سردار

دو پاؤں پر اک بدن کو اٹھانے پہ نازاں

اور اس کے کئی روپ، بہروپ

سائے ہی سائے ۔۔۔ کبھی دھوپ ہی دھوپ

رشتوں کی زنجیر ۔۔۔ جس مں ہیں مہرو مروت کی

ظلم وعداوت کی کڑیاں

یہ رشتوں کی زنجیر ۔۔۔ جس میں بندھی

ابن ِ آدم کی اور بنت ِحوا کی تقدیر

تقدیر ۔۔۔ جس سے ہیں سب

سخت بیزار و دل گیر و نالاں


یہ جھوٹ اور سچ کے ادلتے بدلتے قوانین و میزاں

قوانین و میزاں کہ جن سے ہراساں 

یہ مخلوق ۔۔۔ نادار و بے کار و وحشت زدہ و سراسیمہ

مخلوق ۔۔۔ بے راہ و بے سمت و حیراں



چلو یہ اگر بن گیا تھا ۔۔۔ بہت تھا

مجھے کیوں بنایا؟

مری عقل کو کیوں بتائی حقیقت

زمین و زماں کی

مکاں لا مکاں کی

یقین و گماں کی

مرے سر پہ پھیلے ہوئے آسماں کی

مری عقل کو یہ حقیقت بتا کر

زمیں کے بجائے

مجھے آسماں کی طرف دیکھنا کیوں سِکھایا؟





10


 دھند گہری ہو رہی ہے --- منظوم ڈرامہ





اک کھیل ۔۔۔ جس کے سب کے سب کردار اصلی ہیں

یہ میں اور تم ۔۔۔ یہی وہ ۔۔۔ اور سب

جن کو نہیں معلوم ۔۔۔۔ کیا اصلی ہے کیا نقلی

اک ایسا کھیل ۔۔۔ جس کو لکھنے والے نے لکھا ہے

نیند کے اور جاگنے کے درمیاں 

اس کھیل میں وقفے بھی آتے ہیں

برابر زندگی کے ۔۔۔ ایک وقفہ ہے

مگر وقفے میں بھی یہ کھیل جاری ہے


ہدایت کار نے اس ضمن میں کوئی ہدایت دی تو ہو گی

ہاں ۔۔۔ مگر پروا ہدایت کار کی کس کو ؟

سو اب اُس وقت سے ۔۔۔ اِس وقت تک ۔۔۔ اور آنے والے وقت تک

یہ کھیل جاری ہے

بہت بے چین ہو ؟ 

اچھا تو لو ۔۔۔ اب پردہ اٹھتا ہے ۔۔۔۔۔ مگر منظر ؟

چلو اب فرض کر لو کوئی ۔۔۔۔
 

( منظر )


میں: __ اگرچہ ڈھونڈنے نکلے تو ہیں پر رات کالی ہے ذرا ۔۔۔۔

تم: ___ اب صدا دینی پڑے گی ۔۔۔۔

وہ: ___ صدا خود روشنی ہے جبکہ ہم دشتِ طلب میں ہیں ۔۔۔

صدا دینی پڑے گی

سب: __ کوئی ہے ؟ کوئی ہے ؟ کوئی اگر ہے تو پکارے 



میں: ___ خموشی ؟ کیا انوکھی خامشی ہے ۔۔۔۔

تم:___ درختوں سے اُبھرتی ۔۔۔ راستوں ہر پھیلتی یہ خامشی ۔۔۔
 
وہ:___ کس قدر تنہا درختوں کے یہ جھنڈ ۔۔۔ آنکھوں کے آگے 

پھیلتے

 یہ راستے

صحرا میں کب ہوتے ہیں ایسے جھنڈ ۔۔۔ ایسے راستے ؟

سب: ___ ہے کوئی صحرا میں یا ۔۔۔۔ ؟



میں:___ دیکھنا وہ چاند نکلا ہے ۔۔۔۔ ذرا دیکھو تو ۔۔۔

تم: ___ صحرا کی چاندی پر جو بکھرے چاند کا سونا ۔

تو کیسا رنگ بنتا ھےانوکھا ۔

میں:___ مگر دل پر اداسی چھا رہی ہے ، خوف اب باقی نہیں ۔۔

ان دیکھی کا اور ان سنی کا ۔۔۔
 
تم: ___ تو کیا وہ ان کہی کا خوف بھی ؟

میں: ___ ان کہی ؟ میں نے کبھی سوچا نہیں

 
وہ: ___ ان کہی میں خوف بھی، امکان بھی پوشیدہ رہتا ہے ۔۔ مگر 

امکان میں

پوشیدگی ہے ۔۔۔ خوف بھی ہے ۔۔۔ ان کہی بھی
 
سب:__ کہیں پوشیدہ ہے کوئی یہاں ؟



میں:__ جب یہ پہلی بار چاہا تھا کہ نکلوں اس سفر پر ۔۔۔ 

سب نے روکا

 تھا 

مگر کوئی نہ تھا ۔۔۔ جو بڑھ کے کہہ دیتا کہ مت جاؤ ۔۔۔ 

رکو میرے لیے 

تم: __ میں نے چاہا تھا مگر پھر ۔۔۔

 میرا اپنا بھی ارادہ اس سفر کا ہو 

گیا ۔۔۔

اور ڈھونڈنا کیسا ؟ مجھے دراصل تو مقصود تھی تھوڑی رفاقت ۔۔۔

میں: __ اگر تم نے کہا ہوتا تو شاید ۔۔۔ 

وہ: ___ مگر کہنا، نہ کہنا ۔۔۔ چاہنا، کم چاہنا ۔۔ کب اختیاری ہے 

میں: __ ساری بات اُس سے مختلف تھی، تم نے جو سمجھی 

مگر ۔۔۔

تم: __ بات جو تم کہہ نہ پائیں آج تک ۔۔۔ اب کہہ بھی دو تو کیا ؟

 چلو ۔۔۔ 

سب: __ ہے کوئی اس جھنڈ سے آگے ۔۔ کوئی ہے ؟



میں:___ یہ کیسے راستوں سے راستے ۔۔۔ نکلے چلے آتے ہیں ۔۔۔

تم:___ الفت کہاں ہوتی ہے گوشہ گیر ایسی ۔۔۔ جیسی تم نے کی ۔۔۔
 
خبر ہونے نہ دی مجھ کو بھی تم نے ۔۔۔۔

میں: __ مجھے خود بھی خبر کب تھی کہ ایسا واقعہ ۔۔۔۔۔

وہ:___ خیر ، الفت تو خبر ہے خود ۔۔یہی تو واقعہ ہے ۔۔

 حادثہ ہے ۔۔

 راستہ ہے

سب: ___ کوئی رستوں سے آگے ہے ؟ کوئی ہے ؟؟



میں:___ نجانے رات کتنی جا چکی ہے ۔۔۔ 

تم: ___ اگر ہم ساتھ ہیں، پھر فکر کیسی ؟

میں:___ مگر ہم ساتھ کب ہیں ؟ ہم تو اس دشتِ طلب میں،

 اپنی اپنی 

ذات

پیچھے چھوڑ کر ۔۔۔ نکلے ہیں اُس کو ڈھونڈنے ۔۔۔

وہ:___ ڈھونڈنے والے تو راتوں کو نہیں سوتے ۔۔

 وہ اپنی ذات کے

غم میں نہیں روتے کبھی 

میں: ___ سوچتی تھی ۔۔۔ میں بھی اپنا خواب دیکھوں ۔۔۔

تم:___ محبت، خواب کی ڈالی سے ٹوٹا پھول تو ہے ۔۔۔ 

وہ: ___ محبت خار بھی ہے ۔۔۔ دل کی گہرائی میں ٹوٹی

 ایک نوکِ خار

سب: ___ باطن میں گہری رات کے، کوئی تو ہو گا



میں:___ سفر باقی ہے کتنا ؟ پاؤں اب شل ہو چکے ہیں ۔۔۔ 

تم: ____ سہارا چاہئے تو ہاتھ حاضر ہے ۔۔۔ یہی وہ ہاتھ ہے
 
جو اس سے پہلے بھی بڑھا تھا ۔۔۔ 

میں: ___ سہارا ؟ یاد ہے شرطِ سفر کیا تھی بھلا ؟

تم: ___ رات باقی ہے ۔۔۔ سفر لمبا ۔۔۔ رفاقت کی ضرورت تو رہے گی

وہ: ___ مگر جو ڈھونڈنے نکلیں ۔۔ رفاقت کے تو

 قائل ہی نہیں 

ہوتے ۔۔۔

یہ تنہائی مقدر لوگ ۔۔۔۔

میں:___ پیاسی ہوں ۔۔۔ کیا پانی ملے گا ؟

تم:___ محبت آدمی کو اس طرح سیراب کر دیتی ہے ۔۔۔

پھر مشروب کی حاجت نہیں رہتی ۔۔۔۔

وہ:___ پیاس بھی تو ہے محبت ۔۔۔ پیاس ۔۔۔ گہری پیاس

سب:___ کوئی رفاقت کی حدوں کے پار ہے ؟


میں:___ صبح کے آثار ہیں ۔۔ اور دھند اتری آ رہی ہے ۔۔

تم: ___ افق سے راستوں پر اور درختوں پر ۔۔۔ فضا سے اپنے 

چہروں

 پر

 یہ ہلکی دھند ۔۔۔

میں:__ اور پھر یہ دشتِ ہول ۔۔۔ اور یہ دل کی ویرانی ۔۔۔ یہ دل ۔۔۔

تم: ___ ساتھ کی راحت ؟

میں: ___ جانے جھوٹ کیا ہے ۔۔۔ سچ ہے کیا ؟

تم:___ ہم ہی سچ ہیں

وہ:___ نہیں ہے جھوٹ کوئی ، ہاں مگر کوتاہ نظری ۔۔۔

سچ نہیں کچھ، بس ارادہ اور طاقت

سب:___ کوئی ہے، جھوٹ میں یا سچ میں پوشیدہ ؟ پکارے ۔۔۔۔ 



میں: ___ سفر کتنا ہے ؟ کتنا دشت باقی ہے ؟ بتاؤ

تم:___ نہیں اندازہ کچھ اتنا ۔۔ مگر لگتا ہے ۔۔۔ عمروں ہی سے ہم

 
اس دشت میں ہیں ۔۔ اور صدیوں سے سفر میں ہیں ۔۔۔

کبھی گر ناپ سکتے رات کو ۔۔۔ اور دشت کو ۔۔۔ اور اس سفر کو ۔۔۔ 

وہ: ___ سفر ناپا نہیں کرتے ۔۔۔ تلاش آغاز کرتے ہیں،

 تو پھر انجام کا

 سوچا


نہیں کرتے ۔۔۔ صدا کرتے ہیں، بڑھ جاتے ہیں ۔۔۔ ہر اک موڑ پر
 
ٹھہرا نہیں کرتے ۔۔ چلو آواز دیتے ہیں ۔۔۔ چلو آواز دو ۔۔۔

سب: ___ کوئی ہے ؟ کوئی یہاں پر ہے ؟ کہیں پر کوئی ہے ؟

 ہے تو

 پکارے ۔۔۔

کوئی تو ھو گا ۔۔۔۔ کہیں پر کوئی تو ہو گا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔



جواب آتا نہیں ہے

باز گشت آتی ہے

اور اب دھند گہری ہو رہی ہے

( پردہ گرتا ہے )